” اب یا پھر کبھی نہیں ” – میرک بلوچ

285

” اب یا پھر کبھی نہیں “

میرک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

فیصلہ کن لمحات صدیوں کا انتظار نہیں کرتے بلکہ واقعات و حالات انتہائی تیزرفتاری سے رونما ہوتے ہیں۔ تاریخ اپنے فیصلہ کن لمحات سے بھری پڑی ہے۔ بالشویک انقلاب میں وہ تین دن اہم تھے، واضح رہے کہ اس دوران بالشویک رہنماؤں کی اکثریت ملک میں موجود نہیں تھی۔ ان تین دنوں کے اندر ہی عظیم لینن، ٹروٹسکی، ویرا اور دوسرے رہنما انتہائی مشکل حالات میں سوئٹزرلینڈ سے وطن واپس پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ یہی وہ لمحات تھے جب عظیم لینن نے کہا
” اب یا پھر کبھی نہیں ”
پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ تاریخ کا سب سے عظیم انقلاب برپا ہوا جس نے ساری دنیا کو بے پناہ متاثر کیا ۔

لمحات فکر انگیز ہوتے ہیں اور سائنسی نقطہ نگاہ، انداز فکر اور سمتوں کی درستگی سے لمحات سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے، انقلابی عوامل کسی معروضی حالت کا انتظار نہیں کرتے ۔ نام نہاد چغیداری دانشوروں نے اپنی بے عملی اور بزدلی کو الفاظ کے خوبصورت پیرہن میں معروضی حالات کا گھسا پھٹا جملہ ہر وقت دہرا کر اس کے دبیز پردوں میں خود کو چھپاتے رہے اور یہ عناصر تاریخ کے ہاتھوں عبرت ناک انجام سے دوچار ہوتے رہے۔

موجودہ بین الاقوامی صورتحال اور خطے میں رونما ہونے والے تذویراتی کیفیت تیزرفتاری سے بدلتے ہوئے حالات کی غمازی کررہے ہیں۔ طالبان اور USA کے درمیان مذاکراتی عمل کافی عرصے کی ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا حصہ ہیں۔ اور یہ بات بھی یاد رہے کہ یہ مذاکراتی عمل خود USA کی عین منشا و مرضی کے مطابق ہورہے ہیں۔ بہت کچھ ہونے کے ساتھ اور بہت کچھ ہونے جارہا ہے۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ خطے کے بہت سے ممالک افغانستان میں اپنے تمامتر مفادات کے ساتھ کسی نہ کسی حوالے سے شریک ہیں۔ اسی لئے ماسکو میں چین اور روس نے بھی طالبان کے ساتھ الگ سی میز سجاکر مذاکرات کئے۔ اور ان دونوں نے بھی USA کو اعتماد میں لیا یعنی ایک طرح سے یہ بھی USA کی مرضی کے مطابق ہوئے ۔ یہ بات بھی اہمیت کا حامل ہے کہ روس، چین اور ایران پہلے سے ہی ایک اتحاد کا حصہ ہیں۔ یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ چاہ بہار پورٹ کی تعمیر و تکمیل ہندوستان اور چین نے کی اور پھر چاہ بہار سے ایک روڈ بھی ہندوستان و چین کے کاوشوں سے سیدھا افغانستان تک بنائی گئی، جس سے وسط ایشیاء کے سارے ممالک اس سے مربوط ہونا چاہتے ہیں۔( واضح رہے کہ وسط ایشیاء کے ممالک میں فارسی زبان بولنے والوں کی اکثریت ہے جن کے ثقافتی اور تاریخی تعلقات افغانستان کے شمالی علاقوں اور ایران کے ساتھ بہت گہرے ہیں۔)

اب صورتحال 1990 ء والی دھائی کے نہیں جب سویت یونین افغانستان سے انخلا ہوا اور USA کی بھی دلچسپی ختم ہوگئی اور جینوا میں مذاکرات ہوئے ۔ اس وقت کولڈ وار کا بھی خاتمہ ہوا، پاکستان کی فنڈنگ ختم ہوگئی بلکہ USA نے اس وقت تمام امداد بھی بند کئے۔ اس پر پاکستانی ریاست بوکھلا اٹھا اور افغانستان کو خالی دیکھ کر اپنے تخلیق کردہ طالبان کے ذریعے افغانستان پر مکمل قبضہ کر لیا۔ بلکہ یہی نہیں افغانستان کے ذریعے وسط ایشیا تک جانے کی تیاری کرلی۔ اس کے بعد سوڈان میں القاعدہ کے ٹھکانوں پر USA کی بمباری سے ختم ہونیوالی القاعدہ کے سربراہ بن لادن کو بھی افغانستان میں بٹھایا۔ مگر یہ سارا کھیل الٹ ہوگیا کیونکہ 9/11 کے واقع کے بعد حالات تبدیل ہوگئے ۔ USA کی بمباری اور بعدازاں افغانستان میں USA اور نیٹو فوج کی آمد سے خطہ تبدیل ہو گیا۔ لیکن پاکستانی ریاست نے نہ صرف طالبان کو سپورٹ کیا بلکہ بن لادن کو بھی اپنے خاص مقصد کے لئے چھپائے رکھا۔

اب USA اور طالبان کے درمیان دوحہ مذاکرات میں پاکستان کی ساری تاویلیں ختم ہو گئیں۔ ساری دنیا نے دیکھا اور USA نے بھی دکھایا کہ طالبان کی پشت بانی کون کررہا تھا۔ دوحہ مذاکرات میں ایک اہم مطالبہ پاکستان کی شہہ پر طالبان نے بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے کیا۔ اس سے پاکستان کو تو کچھ فائدہ نہیں ہوا لیکن یہ بات دنیا کے اور خاص طور پر USA کے سامنے آگئ کہ اس خطے میں بلوچ قومی آزادی کی تحریک اور بلوچ قوم اہم فریق ہے۔ اب یہ خطہ اہم ترین تبدیلیوں سے دوچار ہوگا اگر افغانستان میں عبوری حکومت بن جائے گی یا مذاکرات کے بعد عام انتخابات میں طالبان جیت جائینگے یا پھر مخلوط حکومت بنے گی تو یقینی طور پر طالبان پہلے والے طالبان نہیں ہونگے ۔ ان کی ہیئت ہی تبدیل ہوگی اور پاکستان واضح طور پر یک و تنہا ہوکر رہ جائے گا۔

اس تمام ہوتی تبدیلیوں میں اب بلوچ قومی آزادی کی تحریک کے لئے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے روشن ترین امکانات پیدا ہونے والے ہیں۔ اس لئے جاری تحریک کے ہر محاذ پر تیزی لانا ضروری ہوگا۔ اس کے علاوہ یہ وقت بلوچ قومی آزادی کے رہنماؤں کے لیے بھی ایک امتحان ہے کہ یہ رہنما اپنی حکمت، دانائی ،پختگی اور صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کیسے کرینگے؟

کیونکہ فیصلہ کن لمحات صدیوں کا انتظار نہیں کرینگے۔ اب دیکھتے ہیں کہ بلوچ قومی آزادی کے رہنما عظیم لینن کی طرح کب یہ کہینگے کہ
“اب یا پھر کبھی نہیں “

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔