آزادی پینل میں متحدہ کی شمولیت – نادر بلوچ

254

آزادی پینل میں متحدہ کی شمولیت

تحریر: نادر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

فروری 2 مہاجروں کی تاریخ میں یقناً ایک یاد گار دن ثابت ہوگا۔ اس دن مہاجروں کے واحد نمائندہ سیاسی تنظیم متحدہ قومی موومنٹ کے قائد جناب الطاف حسین نے اپنے دو گھنٹوں پرمشتمل خطاب میں مہاجر، بلوچ، سندھی، پشتون اقوام سے مخاطب ہوکر پاکستان سے باقاعدہ، آزادی کی جہد شروع کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی آزادی کی جہد میں مشغول دیگر اقوام کومشترکہ جد و جہد کی دعوت بھی دی۔ قائد تحریک نے مشترکہ طور پر اقوام متحدہ میں قانونی چارہ جوئی کیلئے بلوچ قوم اور پشتون رہنماوں کو بھی دعوت دی۔ بلوچستان میں جاری ریاستی جبر پر روشنی ڈالتے ہوۓ انسانی حقوق اور خاص طور پر خواتین و بچوں، اور چادر و چاردیواری کی بے حرمتی کی مذمت کی، پشتون، بلوچ رہنماوں کے نام پیغام میں کہا کہ وہ اور مہاجر کسی بھی سطح پر اتحاد کرنے کیلئے تیار ہیں تاکہ اس طویل جبر کا خاتمہ کیا جاسکے۔ اس سے پہلے بھی الطاف بھائی اتحاد و یکجہتی پر زور دیتے رہے ہیں لیکن یہ پہلی بار ہے کہ وہ آزادی کے واضح مقصد کے ساتھ دیگر اقوام کے ساتھ جہد میں یکجاء ہونے کیلئے تیار ہیں۔

کسی بھی مقصدیت پر مبنی اتحاد پر پہنچنے کیلیے ضروری ہے کہ جن اقوام کو اس اتحاد میں شامل ہونے کی دعوت دی گی ہے انکی قومی سیاست کس سطح پر ہے دوسری جانب ان عوامل کا بھی جائزہ لینا ہوگا جو اس ممکنہ اتحاد کیلئے جواز بن سکتے ہیں، تیسرا یہ کہ ان متوقع رکاوٹوں کا بھی جائزہ لینا ہوگا، جو ایک عظیم تر اتحاد میں رکاوٹ ہوسکتی ہے۔ بلاشبہ آج ریاستی ظلم و جبر اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ محکوم اقوام جذباتی حد تک ایک دوسرے کی دکھ درد کو محسوس کرنے لگے ہیں، ستر سالہ تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی اب دم توڑتی جارہی ہے۔ ون یونٹ کے خاتمے، اور سن ستر کی جہد میں نیپ کا قیام پشتون، بلوچ اور سندھی اتحاد کیلئے ایک روشن باب ثابت ہوتا اگر دور اندیشی کا مظاہرہ کرکے قومی سوال کے حل کے مطابق قومی آزادی اور شناخت کیلیے جہد کو نظریاتی بنیاد پر تمام اقوام اپناتیں۔ مگر قابض ریاست اپنے مکر و فریب میں کامیاب ہوئی اور اس اتحاد کو پاش پاش کرنے میں کامیاب ہوئی۔

بعد کے سالوں میں نام نہاد پارلیمانی سیاست کے ذریعے اس پارلیمنٹ کو مزید دوریاں بڑھانے کیلئے استعمال کی گی۔ موجودہ بلوچ قومی تحریک کا جائزہ لیں تو بیس سال مکمل ہونے کو ہے ہزاروں نوجوانوں کی قربانیاں، جبری گمشدگیاں بلوچ سر زمیں کے چپے چپے کو خون آلود کرچکی ہیں لیکن آج بھی بلوچ قوم، قومی آزادی، قوم پرست سیاست کی بنیاد پر دیگر محکوم و مظلوم اقوام کیساتھ ہونے والی مظالم، ناانصافیوں پر آواز بلند کرتی رہی ہیں اور دیگر اقوام کو حقیقی اور فیصلہ کن تاریخی جہد کیلئے یکجاء ہونے کا پیغام دیتے آئے ہیں۔ سندھ سمیت کوئی بھی خطہ آزادی اور جہد کے حوالہ سے اتحاد کی آواز بلند کرتی ہے تو بلوچ وہ پہلی قوت ہوگی جو اسکی حمایت کرتی ہے۔

پاکستان کی غیر نظریاتی و غیر فطری تشکیل کے وقت جس طرح برصغیر کی معصوم مسلمان آبادی کو اسلام و مذہب کے نام پر دھوکہ دیا گیا، اسکی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ لاکھوں کے حساب سے حیدرآباد، و ہندوستان کی دیگر علاقوں سے مسلمان آبادیاں اس سوچ کی تحت پاکستان آے۔ تعصب، منفی رویوں کا اظہار ان مہاجرین کو پنجاب کے ریلوے اسٹیشنوں پر پہنچ کر ہونا شروع ہوگیا تھا۔ یہ باتیں تاریخ کا حصہ ہیں کہ لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر آنیوالے مسلمانوں کو یہ کہہ کر اترنے نہیں دیا گیا کہ پاکستان آگے ہے۔ مگر لوٹے پھوٹے یہ مسافر اب کرتے بھی کیا جب چڑیا چگ گئی کھیت۔ ان اجنبی اور تعصبی رویوں کا ذکر قائد مہاجر سربراہ متحدہ قومی موومنٹ جناب الطاف حسین صاحب اپنی تقریروں میں متعد بار کرچکے ہیں۔ کراچی سمیت اندرون سندھ منتقل ہونے والے بانیان پاکستان کی نسل سے تعلق رکھنے اور ہندوستان کی تقسیم میں شامل اس آبادی کو ہمیشہ سوتیلا پن کے احساس کے ساتھ ہمیشہ منفی و شک کی نظر سے دیکھا گیا۔ غدار اور ہندوستانی کا طعنہ آج بھی انکا پیچھا کرتی ہے۔

مہاجرین کے ہزاروں نوجوانوں کو صرف اس لیے منظم فوجی آپریشنوں میں طاقت کا بے دریغ استعمال کرکے شہید کیا گیا تاکہ کراچی سمیت دیگر شہروں کی معشیت پر قبضہ کیا جاسکے،ہزاروں گھر اجاڑ دیے گے۔ ریاستی سرپرستی میں مہاجروں کی نسل کشی، معاشی قتل میں مصروف ریاستی ادارے ایک بار پھر سالوں کی کوشش جاری رکھے ہوۓ ہیں۔

دوسری جانب بلوچ قوم اپنی جہد میں مصرف عمل ہونے کے ساتھ ساتھ سندھ اور مہاجروں کے ساتھ ہونیوالی اس ریاستی برتاو پر ہمیشہ ریاستی اقدامات و جبر پر اپنی واضح موقف آزادی کے ساتھ کھڑی ہے۔کیونکہ آزادی ہی قوموں کی ثقافت،معشیت، اور شناخت کی ضامن ہے۔ آج اس خطے میں رہنے والی تمام اقلیتوں اور قوموں سے ریاست انکی شناخت چھیننے کے درپے ہے۔ ایک مشترکہ پلیٹ فارم کی ضرورت ہمیشہ سے رہی ہے تاکہ بکھری ہوئی طاقت اور وسائل کو مشترکہ مفادات کے تحفظ کیلئے ایک دوسرے سے تعاون کرکے صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر آزادی کی جہد میں ہمگام ہوکر مدد و کمک کرسکیں۔

قابض ریاست اور اسٹیبلشمنت نے ہمیشہ بلوچ، سندھی ، مہاجر، پشتون اقوام پر انگریز کی پالیسی کے تحت لڑاو، تقسیم کرو اور حکومت کرو کے تحت حکومت اور اس غلامانہ نظام سے انکا استحصال کرتی رہی ہے۔ مہاجروں کی خوش قسمتی ہے کہ جناب الطاف حسین نے انکو شناخت دی اس کو قائم رکھنے کیلیے متحدہ جیسی متحرک تنظیمی نیٹ ورک کا قیام عمل میں لایا، جس نے مہاجر اتحاد کو مقبوضہ کراچی سمیت دنیا بھر میں قائم کیا ہے۔ انکی سوچ و فکر نے سرد و گرم حالات میں ہمیشہ مہاجروں کے مفادات کی حفاظت کی ہے۔ انکی دور اندیشی اور سیاست کی تعریف ان کے حریف بھی کرتے رہے ہیں۔آج مظلوم و محکوم اقوام سے اتحاد کی اپیل اسی سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ مہاجر سمیت آزادی کی جہد شروع کرنا آج ہر قوم کی ضرورت ہے۔ اتحاد و یکجتی قائم کرنے کیلیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ باقائدہ اس پر گفت و شنید شروع کی جاسکے۔ جسکی بنیاد ایک مشترکہ کمیٹی قائم کر کے شروع کی جاسکتی ہے جس میں تمام آزادی پسند اقوام کی نمائندگی ہو۔ اس میں مظلوم و محکوم اقوام کی کامیابی ہوگی۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔