کیا حسنین بلوچ مجرم ہے؟ – توارش بلوچ

215

کیا حسنین بلوچ مجرم ہے؟

توارش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں پاکستانی فوج کی جانب سے وحشیانہ کارروائیاں روز بروز شدت پکڑتی جارہی ہیں، بلوچستان میں آئے دن ایک نئے منصوبے کے ساتھ پاکستانی فورسز اور ایجنسیاں بلوچ قومی تحریک کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ بلوچ تعلیم یافتہ طبقے کے خلاف پاکستانی ایجنسیوں کا کریک ڈاؤن آج کا سلسلہ نہیں بلکہ 2005 سے جاری ہے جب بی ایس او کے لیڈرشپ کو پاکستانی فوج نے اغواء کیا تھا۔ اس کے بعد ہر گذرتے دن اس میں شدت آتی رہی اور آج عالم یہ ہے کہ سرے عام لاپتہ طلباء کو دہشت گرد ظاہر کرتے ہوئے اُنہیں زندانوں میں قید و بند کیا جا رہا ہے۔

2009 اور 2010 کے دوران سینکڑوں طلباء کو لاپتہ کرنے کے بعد مختلف اذیتیں دے کر ان کی مسخ شدہ لاشیں بلوچستان کے الگ الگ ویرانوں میں پھینک دیئے گئے، یہ سلسلہ کئی عرصے تک چلتا رہا، جوہنوز ایک حدتک جاری ہے لیکن وقت گُذرنے کے ساتھ ساتھ بلوچ طلباء کی جبری گمشدیوں میں تیزی لانے کے بعد اُنہیں مختلف طریقوں سے ٹارگٹ کرنا شروع کیا گیا 2013 میں بی ایس او آزاد تربت زون کے سیکرٹری جنرل اور ڈیلٹا کے سینئر ٹیچر شہید رسول بخش کو لاپتہ کیا گیا، جس کو لاپتہ ہونے کے دو سال بعد ایک فیک انکاؤنٹر میں شہید کیا گیا اور میڈیا پر یہ جھوٹا شوشہ چھوڑا گیا کہ یہ دوران جنگ سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مقابلے میں شہید ہوئے ہیں، البتہ رسول بخش کی گمشدگی میڈیا کے سامنے بھی آئی تھی، لیکن اس کے باوجود پاکستانی میڈیا نے پاکستانی فوج کی جانب سے جھوٹے جعلی انکاؤنٹر کو کوریج دی اور حقائق کو مسخ کیا گیا، یہ سلسلہ بھی کئی وقتوں تک چلتا رہا، اس دورانئے میں طلباء کے ساتھ ساتھ مختلف سیاسی کارکنان اور بےگناہ لوگوں کو لاپتہ کرنے کے بعد اذیتیں دے کر پھر اُنہیں شہید کرتے ہوئے جعلی انکاؤنٹر کا نام دیا گیا، لیکن دشمن نے ہر گذرتے سال کے بعد اپنے منصوبوں اور حربوں میں تبدیلی لائی ہے اور مختلف طریقوں سے بلوچ طلباء کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔

بلوچ طلباء پاکستان کے کسی بھی کونے میں محفوظ نہیں رہے ہیں، کراچی سے لیکر پاکستان کے دیگر شہروں سمیت کوئٹہ سے درجنوں بلوچ طلباء لاپتہ کئے گئے ہیں۔ جن میں زیادہ تر کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئی ہیں اور آج بھی ہزاروں بلوچ طلباء پاکستانی اذیت گاہوں میں مختلف قسم کی اذیتیں برداشت کر رہی ہیں جبکہ کئی طلباء جعلی انکاؤنٹر میں شہید کئے گئے ہیں، جبکہ سینکڑوں اجتماعی قبروں میں دفنائے گئے ہیں، بلوچ طلباء کو مختلف طریقوں سے پاکستانی فوج اور ایجنسیوں نے اذیت دیا ہے۔

اب ایک نئے حربے کے ساتھ بلوچ طلباء کو ٹارگٹ کیا جاناشروع ہو چُکا ہے، کل پاکستانی فوج کی میڈیا(فوج کا میڈیا اس لیے کہ پاکستانی میڈیا میں وہی خبریں نشر ہوتی ہیں جن کی اجازت صرف فوج دیتی ہے) نے بار بار ایک جھوٹے خبر کو نشر کرتے ہوئے، اسے سندھ پولیس کی کامیابی کا نام دیا کہ 25 نومبر کو چینی قونصل خانے پر بلوچ سرمچاروں کی جانب سے ہوئے حملے میں سرمچاروں کے پانچ معاون کار گرفتار کئے گئے ہیں، پولیس کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ لوگ انہی دنوں میں کراچی سے پولیس کی جانب سے گرفتار کئے گئے ہیں۔ ان میں سے چار لوگوں کے بارے میں مجھے ذاتی حوالے سے کوئی انفارمیشن نہیں لیکن لگتا یہی ہے کہ دوسروں کی طرح وہ بھی پہلے سے لاپتہ یا بےگناہ بلوچ ہیں، جنہیں سرمچاروں کا معاونت کار ظاہر کرتے ہوئے سزا دیا جا رہا ہے لیکن ان میں سے ایک طالب علم حسنین بلوچ جس کا تعلق کوئٹہ سے ہے اور وہ کوئٹہ سائنس کالج میں فرسٹ ائیر کا طالبعلم ہے۔ جنہیں 30 نومبر کو پاکستان فوج نے ستر گاڑیوں کے ساتھ ان کے گھر پر حملہ کرتے ہوئے اُنہیں ان کے بڑے بھائی جیئند بلوچ اور ان کے والد عبدلقیوم کے ہمراہ اغواہ کیا تھا، دو دن ذہنی و جسمانی اذیت کے بعد ان کے والد عبدلقیوم کو پاکستانی ایجنسیوں نے چھوڑ دیا تھا جبکہ ان کے بچے ابھی تک پاکستانی فوج کے اذیت گاہوں میں قید ہیں، جن میں ان کے چھوٹے بیٹے حسنین کو کراچی میں چینی قانصلیٹ پر کامیاب حملے میں ملوث قرار دیا گیا ہے۔

کل وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کے عہدیداران سے بات کرتے ہوئے لاپتہ طلباء حسنین اور جئیند بلوچ کے والد عبدلقیوم نے اپنے جبری گمشدگی کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا تھا کہ اُنہیں اور اسکے دو بیٹوں کو انکے گھر واقع محلہ شیخ حسینی ہدہ کوئٹہ سے 30 نومبر 2018 کو رات کے تین بجے پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے اداروں نے حراست میں لیکر لاپتہ کیا تھا جبکہ عبدلقیوم کا کہنا ہے کہ مجھے یہ کہہ کر رہا کیا گیا تھا کہ خاموش رہیں ریلی اور جلسہ جلوسں نہ کریں، ان کے دونوں بیٹوں کو صحیح سلامت رہا کیا جائے گا لیکن آج دو مہینے ہونے کو ہیں کہ حسنین بلوچ کو ایک جھوٹے کیس میں کراچی پولیس نے گرفتار کرنے کا کھیل کھیلا ہے۔

جھوٹ اور فریب کا کھیل پاکستانی فوج آج نہیں بلکہ دہائیوں سے بلوچوں کے ساتھ کھیل رہی ہے، حسینن بلوچ جیئند بلوچ اور ان کے والد کی گمشدگی کے ایک دن بعد یکم دسمبر کو عبدلقیوم کی فیملی کی جانب سے ایک پریس کانفرنس کیا گیا تھا، جس میں فیملی نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کے والد کو پاکستانی خفیہ اداروں نے ان کے دو بیٹوں کے ساتھ رات کی تاریکی میں دو اور تین بجے کے دوران اغواء کرکے لاپتہ کیا ہے، جن میں عبدلقیوم بلوچ ایک سرکاری ملازم ہیں جبکہ دونوں بیٹوں میں سے ایک ملتان بہالدین زکریا یونیورسٹی میں شعبہ سوشیالوجی کا طالبعلم ہے جبکہ دوسرا بیٹا حسنین بلوچ سائنس کالج میں فرسٹ ائیر کا طالبعلم ہے دو دن بعد عبدلقیوم تو رہا ہو گئے لیکن اس کے ساتھ لاپتہ ان کے دو بیٹے آج تک لاپتہ ہیں اور ان میں سے ایک پر اب فوج نے غلط اور بےبنیاد الزام عائد کر دیا ہے۔

اپنے بھائیوں کے بازیابی کیلئے حسنین بلوچ کی بہن مہرنگ بلوچ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے بھائیوں کو پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے ان کے آنکھوں کے سامنے مارتے گھسیٹتے ہوئے رات کے تین بجے لاپتہ کیا تھا، 7 دسمبر کو بی بی سی فیسبک میں شائع شدہ اس ویڈو کلپ میں مہرنگ بلوچ مزید کہتے ہیں کہ ہم مجبور ہوکر روڈوں پر نکلے ہیں جس گھر سے دو جوان بیٹے ایک ساتھ لاپتہ ہو جائیں، اس گھر کی حالت کیا ہوتی ہے یہ ہمیں پتا ہے ہمارے بچوں کو سکول لیجانے والا کوئی نہیں ہے۔

دو ماہ سے لاپتہ بلوچ طلباء کو اس طرح جھوٹے کیسوں میں پھنسانے کی کوشش کرنا اور بلوچ طلباء کو ٹارگٹ کرنے کا ایک نیا طریقہ پاکستانی فوج کا بلوچ طلباء کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کا ایک تسلسل ہے، جو برسوں سے جاری و ساری ہے۔ حسنین کے اپنے بھائی سمیت گمشدگی بعدازاں اُنہیں دہشت گرد ظاہر کرنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان اب بلوچ طلباء کے خلاف ایک اور محاذ کھول رہا ہے تاکہ بلوچ طلباء خوف کے سائے تلے چپ ہو جائیں اور موجودہ حالت میں جو آواز پاکستانی مظالموں کے خلاف بلوچ نوجوان اٹھا رہے ہیں، وہ آواز بند ہو جائیں لیکن ہر بار کی طرح اس مرتبہ بھی ریاستی حربے پہلے کی طرح ناکام ہو جائیں گے۔ بلوچ نوجوانوں پر پاکستانی فوج مکمل دباؤ بڑھانے کی کوشش میں ہے لیکن بلوچ نوجوان باشعور ہو چُکے ہیں، وہ کسی بھی ایسے ہتھکنڈے سے گھبرانے والوں میں سے نہیں ہیں لیکن اس طرح طلباء پر دہشت گردی کے جھوٹے الزامات پر جسطرح پاکستانی میڈیا نے واویلا مچایا ہے، یہ اس بات کی مکمل عکاسی کرتی ہے کہ پاکستانی فوج کے ساتھ بلوچ قوم کی نسل کشی میں پاکستان میڈیا بھی شریک ہے۔ جس طرح فوج کے جھوٹے الزامات کو کوریج دے کر مختلف رنگ دیا جاتا ہے اور اس کی تعریفیں کی جاتی ہیں، وہ اس بات کی مکمل عکاسی کرتی ہے کہ میڈیا ایک فریق کے تحت بلوچ نسل کشی کیلئے استعمال کی جا رہی ہے۔

آخر میں میں انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتا ہوں کہ ایک طالب علم کی زندگی اس درندے فوج سے بچایا جائے، پہلے بھی اسی طرح سینکڑوں طلباء کی زندگیاں نگلی گئی ہیں، اب وہ ایک اور معصوم بلوچ طالب علم کی زندگی کو تباہ کرنا چاہتے ہیں، جس کی گمشدگی پہلے سے ریکارڈ پر موجود ہے اور وہ ایک طالبعلم ہے جو اپنے اسکول میں ایک ریگولر اسٹوڈنٹ تھا لیکن اس طرح سرے عام ایک طالب کی گمشدگی بعدازاں اُسے دہشت گرد ظاہر کرنا، سراسر جبر و ظلم کی آخری نشانیاں ہیں۔ انسان دوست تنظیموں سمیت انسانی حقوق کے اداروں کو چاہیئے کہ وہ حسنین اور ان کے لاپتہ بھائی جیئند بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے ان کی زندگیاں بچانے میں کردار ادا کرتے ہوئے، انسان دوست ہونے کا ثبوت دیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔