کوئٹہ: مختلف علاقوں سے لاپتہ ہونیوالے افراد کے لواحقین کا احتجاج میں شامل

281

سی پیک کےبہانے لاکھوں بلوچوں کو اپنے آبائی گھروں سے زبردستی ٹرکوں میں ڈال کر دوسرے علاقوں منتقل کیا جارہا ہے – ماما قدیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کے اہلخانہ نے مسنگ پرسنز کے کیمپ آکر اپنے پیاروں کے کوائف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پاس جمع کردیئے اور اپنا احتجاج رکارڈ کرایا۔

تفصیلات کے مطاب 13 فروری 2015 کو ضلع پنجگور میں پیر عمر جان کے مقام سے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے بختیار بلوچ کے لواحقین نے لاپتہ افراد کے کیمپ میں بختیار کی گمشدگی کے حوالے سے تفصیلات جمع کرائی۔

بختیار بلوچ کے لواحقین کے مطابق بختیار بلوچ اپنے دیگر 8 دوستوں کے ہمراہ پکنک منانے گئے تھیں جنہیں فورسز نے گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا تاہم بعد میں سب کو رہا کردیا گیا تھا لیکن بختیار بلوچ تاحال لاپتہ ہے۔

اسی طرح ظہیر بلوچ کو 13 اپریل 2015 کو پنجگور سے کراچی جاتے ہوئے حب چوکی کے مقام پر سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے مسافر بس سے اتار کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا۔

دریں اثناء قلات سے ظہور احمد لانگو ولد خیر بخش لانگو سکنہ قلات کو سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے 29 ستمبر 2013 کو اٹھا کر لے گئے جو تاحال لاپتہ ہے۔

یاد رہے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے احتجاج کو آج 3475 دن مکمل ہوگئے جبکہ آج لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنے کیلئے پی ٹی ایم کے صوبائی رہنما حسن آغا ایڈوکیٹ، پشتون ِخواہ ملی عومی پارٹی کے رہنماء قادرآغا، جلیلہ حیدر، بلوچ ہیومن رائیٹس آرگنائزیشن کی بی بی گل بلوچ، طیبہ بلوچ سمیت دیگر نے کیمپ کا دورہ کیا۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم تمام مظلوم قوموں کی طرف سے کہ جن میں بلوچ، سندھی، پشتون، ہزارہ اور کشمیری شامل ہیں، سیکریٹری جنرل یونائیٹڈ نیشنز ، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس، ہیومن رائٹس کمیشن، ایمنسٹی انٹرنیشنل، امریکہ، برطانیہ جرمنی، فرانس اور یورپی یونین کے سربراہان سے اپیل کرتے ہیں کہ مظلوموں اور غلام قوموں کی مارو اور پھینکو کی پالیسی کو بندکرائیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ‎تہتر کا آئین بہت سے امور کی ضمانت دیتا ہے مگر بد قسمتی سے پاکستان خود اپنے آئین پر عمل نہیں کررہا ہے مگر پر بھی پاکستان کے آئین میں بہت سے سکم ہیں کہ جن سے فائدہ اٹھا کر اسٹیبلشمنٹ ملک کا حقیقی مالک بنا بیٹھا ہے۔ جس کی اعتراف پاکستان کی وزیر انسانی حقوق شیرین مزاری کی بیٹی ایمان مزاری نے اسلام آباد میں مسنگ پرسنز کے حوالے سے ایک مظاہرے میں یہ کہہ کر کی کہ پی ٹی آئی حکومت اور میری ماں مسنگ پرسنز کی بازیابی یا مسئلے کی حل کے حوالے سے مکمل بے اختیار ہیں اور اصل فیصلہ کن قوت فوج ہے ۔

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ سی پیک کےبہانے لاکھوں بلوچوں کو اپنے آبائی گھروں سے زبردستی ٹرکوں میں ڈال کر دوسرے علاقوں منتقل کیا جارہا ہے ۔جہاں وہ در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں اور بھیک مانگنے پر مجبور ہیں جبکہ ریاستی اداروں کی سرپرستی میں قبائلی فسادات کو ہوا دی جارہی ہے۔