بلوچ لاپتہ نوجوان کو چینی قونصلیٹ حملہ آور کے طور پر پیش کیا گیا، نوجوان حسنین بلوچ کو گذشتہ برس 30 نومبر کو کوئٹہ سے ان کے گھر سے بھائی اور والد سمیت حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا تھا۔
دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق آج کراچی پولیس نے ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا ہے کہ کراچی قونصل خانے پر حملے میں ملوث پانچ افراد گرفتار کیئے گئے ہیں، تاہم مصدقہ ذرائع سے موصول اطلاعات کے مطابق گرفتار ظاہر کیئے گئے پانچ افراد گذشتہ کافی عرصے سے لاپتہ تھے۔ جن میں سے 14 سالہ نوجوان حسنین بلوچ کی جبری گمشدگی کیخلاف کوئٹہ میں متعدد مظاھرے و ریلیاں ہوچکیں ہیں۔
مذکورہ نوجوان حسنین کو ان کے بھائی، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سینئر جوانئٹ سیکریٹری جیئند بلوچ اور والد کے ہمراہ فورسز اور خفیہ اداروں نے 30 نومبر کو انکے گھر پر چھاپہ مار کر گرفتاری کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا، جس کے خلاف بی ایس او کے مرکزی ترجمان نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ انسانی حقوق اور ملکی آئین کی خلاف ورزی ہے۔ اس بابت بی ایس او، انسانی حقوق کے تنظیموں اور ان لاپتہ افراد کے اہلخانہ نے متعدد مظاھرے بھی کیئے تھے۔
دوسری جانب آج کراچی میں اے آئی جی پولیس ڈاکٹر امیر شیخ نے حسنین بلوچ سمیت دیگر پانچ افراد کو کراچی میں چینی قونصل خانے میں ملوث ہونے کے الزام میں اسلحہ سمیت گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس کراچی (اے آئی جی) ڈاکٹر امیر شیخ نے دعویٰ کیا ہے کہ چینی قونصلیٹ پر حملے کے منصوبے میں ملوث بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے 5 شدت پسندوں کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ انہوں الزام عائد کیا ہے کہ حملے کے لیے ملزمان کو بھارت اور اس کی خفیہ ایجنسی ‘را’ کی حمایت حاصل تھی۔
کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران ڈاکٹر امیر شیخ نے بتایا کہ گرفتار شدت پسندوں میں عبدالطیف، حسنین، عارف عرف نادر، ہاشم عرف علی اور اسلم مغیری شامل ہیں جن کے قبضے سے 3 کلاشن کوف، 3 دستی بم اور دیگر اسلحہ برآمد کیا گیا۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ حملے کا منصوبہ بی ایل اے کمانڈر اور ماسٹر مائنڈ اسلم بلوچ نے افغانستان میں بنایا جس کے لیئے اسلحہ ریلوے کے ذریعے لایا گیا اور بلدیہ ٹاؤن میں رہائش پذیر ایک مکینک عارف نے سہولت کاری کرتے ہوئے اس اسلحے کو اپنے گھر میں چھپایا اور وہیں سے ملزمان 23 نومبر 2018 کی صبح چینی قونصلیٹ پہنچے۔
ڈاکٹر امیر شیخ نے کہا کہ اسلم بلوچ نے منصوبے کے لیے قریبی رشتے داروں کا انتخاب کیا، عارف میکنک اسلم بلوچ کا کزن ہے، جب کہ بشیر زیب اور دیگر شدت پسند بھی آپس میں رشتے دار ہیں۔
کراچی پولیس چیف کے مطابق ہم نے مختلف مقامات سے لوگوں کو پکڑا تاہم اب تک کسی سہولت کار کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق سامنے نہیں آیا، تمام سہولت کار بلوچ لبریشن آرمی اور بھارتی حمایت یافتہ تھے۔
کراچی پولیس چیف ڈاکٹر امیر شیخ کے مطابق حملے کے ماسٹر مائنڈ اسلم بلوچ ایک حملے میں مارے جانے کی اطلاعات ہیں تاہم اس کی لاش نہیں ملی ہے اور اسلم بلوچ کے بعد افغانستان میں بشیر زیب بلوچ بی ایل اے کی کمانڈ سنبھال رہا ہے۔
انہوں نے بریفنگ کے دوران بتایا کہ سہولت کار حملے سے قبل اگست سے نومبر کے دوران کراچی آتے جاتے رہے اور مختلف جگہوں پر رہے، حملہ آور جعلی شناختی کارڈ پر آتے تھے اور انہوں نے اپنے مختلف نام رکھ کر شناختی کارڈ بنا رکھے تھے۔
کراچی پولیس چیف کے مطابق سی پیک منصوبے میں دراڑیں ڈالنے کے لیے چینی قونصلیٹ پر حملہ کیا گیا اور شدت پسند پاک-چین دوستی اور تعلقات میں دڑاریں ڈالنا چاہتے تھے۔
واضح رہے کہ گذشتہ برس 23 نومبر کو کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملہ کیا گیا تھا، حملے کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ حملے میں ہمارے مجید بریگیڈ کے تین ممبران اضل خان مری عرف ڈاڈا ،رازق بلوچ عرف بلال اور رئیس بلوچ عرف وسیم بلوچ نے حصہ لیا تھا۔
حملے میں 2 پولیس اہلکار اے ایس آئی اشرف داؤد اور پولیس کانسٹیبل عامر خان اور چائنیز سیکیورٹی گارڈ ہلاک جبکہ ایک سیکیورٹی گارڈ جمن خان زخمی بھی ہوا تھا، جبکہ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ہلاک شدگان کی تعداد ظاھر تعداد سے کئی گنا زیادہ تھی۔
یاد رہے چینی قونصل خانے پر حملے کے بعد بلوچستان سے بڑی تعداد میں لوگوں کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کیا گیا ہے جبکہ پنجاب اور سندھ میں بھی بلوچ طلبہ کے کوائف جمع کرنے اور انہیں تعلیمی اداروں سے بیدخل کرنے کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق سندھ کے شہر کراچی سے تین سو کے قریب بلوچوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔
بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے متحرک انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس امر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کئی عرصے سے لاپتہ افراد کی جعلی گرفتاری ظاھر کرنا اس بات کا مظہر ہے کہ مذکورہ افراد بیگناہ تھے اب انہیں جعلی کیسوں میں پھنسایا جارہا ہے۔