دنیا بھر میں 2014 سے 2018 تک 5 برسوں میں ہونے والی بے ترتیب ہجرت کے دوران کم ازکم 30 ہزار 510 مہاجرین جاں بحق اور لاپتہ ہوگئے۔
دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارے انٹرنینشل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پانچ برسوں میں ہونے والی ان ہلاکتوں کا سبب کشتی ڈوبنے اورکھلے آسمان میں سردی اور گرمی سے متاثر ہونے سمیت دیگر کئی مسائل ہیں۔
آئی او ایم کی جانب سے مسنگ مائیگرینٹ پراجیکٹ کے تحت حاصل کیے گئے اعداد وشمار کے مطابق 19 ہزار افراد بحیرہ روم، ریو گرینڈ اور خلیج بنگال سمیت دیگر سمندری راستوں میں ڈوبنے سے جاں بحق اور لاپتہ ہوگئے۔
رپورٹ کے مطابق ان پانچ برسوں میں کم ازکم 14 ہزار 795 مرد، خواتین اور بچوں کی اموات شمالی افریقہ اور اٹلی کے درمیان سمندری راستے بحیرہ روم میں ہوئیں۔
لاپتہ ہونے والے مہاجرین کے پراجیکٹ کے اندازے کے مطابق کم ازکم 17 ہزار 644 اموات سمندروں میں ہوئی جو ایک اندازے کے مطابق 1912 میں ڈوبنے والے جہاز ٹائی ٹینک میں ہونے والی اموات سے 10 گنا زیادہ ہے۔
آئی او ایم کے گلوبل ڈیٹا اینالسز سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فرینک لیکزکو کا کہنا تھا کہ ‘بے ترتیب ہجرت اس طرح کے سفر کرنے والوں کے لیے خطرناک ہوتی ہے اس لیے قانونی اور محفوظ راستوں کی اشد ضرورت ہے تاکہ اس طرف آنے والے افراد کی تعداد کو کم کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘زیادہ تر توجہ بحیرہ روم پر دی جاتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں مختلف راستوں میں مہاجرین کی اموات ہوتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے کا کہنا تھا کہ ہلاکتوں کے حوالے سے سرکاری معلومات کی عدم فراہمی کے باعث موجودہ اعداد وشمار کو کم سے کم تصور کیا جاسکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2014 سے 2018 کے دوران افریقہ سے آنے والے مہاجرین کی ہلاکتوں کی تعداد 6 ہزار 629 تھی جو علاقائی لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے، ان میں سے تقریباً 4 ہزار اموات شمالی افریقہ میں ہوئیں۔
ایشیا میں مہاجرین کی ہلاکتوں کی تعداد 2 ہزار 900 سے زائد تھی جن میں شمال مشرقی ایشیا سے 2 ہزار 191 اور خلیجی ممالک سے 531 مہاجرین شامل ہیں۔
امریکا میں گزشتہ 5 برس میں کم ازکم 2 ہزار 959 مہاجرین جاں بحق ہوئے جن میں سے 60 فیصد (1871) افراد امریکا اور میکسیکو کی سرحد میں دم توڑ گئے۔
آئی او ایم کا کہنا تھا کہ لاطینی امریکا اور کیربیئن کے درمیان ایک ہزار سے زائد مہاجرین جاں بحق ہوئے تاہم حقیقی اعداد وشمار کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا رہا کیونکہ مہاجرین دور دراز علاقوں میں دریاؤں اور جنگلات سے گزر رہے تھے۔