لاپتہ والد کی خاطر خاندان کے افراد کو بتائے بغیر بیٹی کوئٹہ پریس کلب پہنچ گئی
اگر میرے ابو کو شہید کیا گیا ہے تو ہمیں بتادیا جائے۔ اگر زندہ ہے تو ملکی قوانین کے مطابق کاروائی کی جائے اور عدالتوں میں پیش کیا جائے – اسما بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ کے نمائندے کے مطابق آج بروز پیر بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم احتجاجی کیمپ میں آواران سے لاپتہ ہونے والے جمیل احمد کی بیٹی اسما بلوچ نے پریس کانفرنس کی جبکہ اس موقعے پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنما ماما قدیر بلوچ، بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی بی بی گل بلوچ، طیبہ بلوچ اور لاپتہ افراد کے لواحقین موجود تھی۔
اسما بلوچ نے کہا کہ گذشتہ کئی عرصے سے کوئٹہ پریس کلب سمیت پاکستان کے تمام پریس کلبوں میں متاثرہ خاندان اپنی فریاد لیکر پہنچتی رہی ہے تاکہ وہ اس پلیٹ فارم کے توسط سے اپنی آواز کو اعلیٰ حکام اور مقتدرہ اعلیٰ تک پہنچا سکیں جن سے انہیں انصاف مہیا ہوں، آج میں سب کی طرح اپنی فریاد اس امید کے ساتھ لیکر پہنچی ہوں کہ مجھے انصاف ملیں، میں ایک بات آپ صحافی حضرات کے علم میں لانے کی کوشش کرونگی کہ جب 2013 کو انتخابات ہونے والے تھے تو صوبائی حکومت سمیت آئی جی ایف سی نے اعلانیہ کہا تھا کہ علاقے میں ٹارگٹ آپریشن کی جائے گی، اسی فیصلے کو مدنظر رکھتے ہوئے فورسز نے ہمارے گاوں تیرتیج آواران سمیت مختلف علاقوں میں آپریشن کیئے۔ اس آپریشن میں میرے والد محترم جمیل احمد کو 29 اپریل 2013 میں ایف سی نے درجنوں لوگوں کے ساتھ گرفتار کیا، چند دن گذرنے کے بعد تمام افراد رہا کیئے گئے مگر میرے والد صاحب کو لاپتہ کیا گیا جو آج تک لاپتہ ہے۔
اسما بلوچ کا مزید کہنا ہے کہ میرے والد ایک مزدور تھے جو دن بھر کھیتی باڑی کرکے رات کو گھر واپس آتے لیکن 29 اپریل 2013 کو ہمارے والد کو لاپتہ کردیا گیا اور آج اس واقعے کو چھ سال کا عرصہ مکمل ہوچکا اور ہمارے والد کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہے۔ ہم نے ڈر اور خوف کی وجہ سے اس واقعے کا کسی سے ذکر نہیں کیا کیونکہ ہمیں ڈرایا گیا کہ اگر کسی کے سامنے کچھ کہا تو مزید افراد کو لاپتہ کیا جائے گا اسی خوف کی وجہ سے ہم خاموش رہے۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد علاقائی میر و متعبر سمیت علاقے سے منتخب صوبائی اسمبلی کے رکن میر عبدالقدوس بزنجو کے ہاں پہنچے وہاں ہمیں جھوٹی تسلیوں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ آج میں اپنی فیملی کو بغیر بتائے اس پریس کلب پہنچی ہو تاکہ اپنے والد کی بازیابی کے لئے آواز اٹھاسکو۔ 2013سے لیکر آج تک مجھ سمیت میری فیملی نے طرح طرح کی اذیتیں جھلیں اب تک سہہ رہے ہیں، ان تکالیف بھری زندگی کو جینا بہت تکلیف دہ اور مشکل ہے اللہ پاک کسی کو اس طرح کے تکالیف سے دور رکھیں۔
انہوں نے کہا کہ میری ابو کو لاپتہ کرنے کے بعد بھی ہم ریاستی بربریت سے بچ نہ سکے روز ہمارے گھروں میں چھاپے لگتے رہے ہمیں ڈراتے دھمکاتے رہے کہ اپنے ابو کی سلامتی چاہتے ہوتو اپنے بھائیوں کو آرمی کیمپ بھیج دو بدلے میں تمھاری والد کو چھوڑ دیا جائے گا مگر میری ماں میرے بھائیوں کو اس لیے منع کرتی رہی کہ انہیں بھی والد کی طرح پابند سلال یا نقصان نہ پہنچایا جائے۔
اسما بلوچ نے بلوچستان کے حالات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ریاستی بربریت کا سلسلہ پوری شدت کے ساتھ جاری ہیں۔ ہمارے گھروں کو جلایا گیا حالات سے تنگ آکر ہم نے علاقے سے مجبور ہو کر ہجرت کی تاکہ اپنی جانیں بچا سکیں لیکن ہمارے رشتے دار سیکورٹی فورسز کے مظالم سے نہ بچ سکے جن میں ہمارے قریبی رشتے دار ماسٹر خدا بخش اور سبزل قوی کو لاپتہ کیا گیا جو پیشے سے ٹیچر اور مزدور تھے۔ دوران تشدد دونوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئی۔ ماسٹر خدابخش کی لاش خضدار جبکہ سبزل قومی کی لاش تربت کے علاقے ڈنڈار سے بر آمد ہوئی۔
انہوں نے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس پریس کانفرنس کے توسط سے اعلیٰ حکام سے مطالبہ کرتی ہو کہ میرے والد صاحب کو منظر عام پر لایا جائے اگر میرے ابو کو شہید کیا گیا ہے تو ہمیں بتادیا جائے۔ اگر زندہ ہے تو ملکی قوانین کے مطابق کاروائی کی جائے اور عدالتوں میں پیش کیا جائے، میں حکومت بلوچستان اور ان کے اتحادی جماعت بی این پی کے قائد اختر مینگل سمیت حکومتی اداروں سے مطالبہ کرتی ہو کہ میرے والد کی بازیابی کے لئے کردار ادا کریں۔