مسخ شدہ لاشوں کو نامعلوم قرار دے کر تدفین کرنا تشویش ناک عمل ہے ۔ بی ایس او آزاد

178

ریاست نے اپنے سنگین جراہم کو دنیا کے آنکھوں سے اوجھل رکھنے کے لیے گذشتہ دنوں برآمد ہونے والے مسخ شدہ لاشوں کو نامعلوم قرار دیکر بغیر ڈی این اے کے تدفین کروائے ہیں – بی ایس او آزاد

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں گزشتہ دنوں کوئٹہ کے نواحی علاقوں سے قریباً دس مسخ شدہ لاشوں کے ملنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاستی اداروں نے مسخ شدہ لاشوں کو بغیر کسی ڈی این اے ٹیسٹ کے نامعلوم لاش قرار دے کر تدفین کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین کو مزید اذیت میں مبتلا کردیا ہے۔ بلوچستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے کمسن بلوچ بچوں، نوجوانوں، عورتوں اور بوڑھوں سمیت طالب علموں کو جبری طور پر لاپتہ کرکے خفیہ ٹارچر سیلوں میں قید کرنے اور ان کے مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی میں انتہائی تیزی آئی ہے۔ بلوچستان میں اس سے قبل بھی اجتماعی قبریں یا لاشیں برآمد ہوئی ہیں، دسمبر 2013 کو خضدارکے علاقے توتک سے اجتماحی قبروں سے 170 کے قریب مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی تھی جو بغیر کسی ڈی این اے ٹیسٹ کے نامعلوم لاش قرار دیکر تدفین کیے گئے تھے جبکہ پنجگور، ڈیرہ بگٹی اور دیگر علاقوں سے بھی اجتماعی قبریں برآمد ہوئے تھے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ ہمیں سنگین خدشات لاحق ہے کہ گذشتہ دنوں کوئٹہ کے نواحی علاقوں سے برآمد مسخ شدہ لاشیں لاپتہ افراد کے ہونگے، گذشتہ دو دہائیوں سے بلوچستان میں ریاستی اداروں نے ہزاروں لوگوں کو لاپتہ کیا اور سلسلہ ہنوز شدت کے ساتھ جاری ہے جبکہ لاپتہ افراد کے سینکڑوں مسخ شدہ لاشیں بھی برآمد ہوچکے ہیں۔ بلوچستان میں ریاستی اداروں کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے پہ در پہ ہونے والے واقعات کو مد نظر رکھ کر انتہائی وثوق سے کہتے ہیں کہ ریاست نے اپنے سنگین جراہم کو دنیا کے آنکھوں سے اوجھل رکھنے کے لیے گذشتہ دنوں برآمد ہونے والے مسخ شدہ لاشوں کو نامعلوم قرار دیکر بغیر ڈی این اے کے تدفین کروائے ہیں۔

ترجمان نے آخر میں کہا کہ بلوچستان میں اجتماعی قبروں اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کا مسئلہ انتہائی سنگین ہوتا جارہا ہے جبکہ عالمی اداروں سمیت عالمی میڈیا کی خاموشی ریاستی ظلم و ستم کو مزید تقویت دے رہی ہے لہٰذا ہم اقوام متحدہ، عالمی نمائندوں اور عالمی میڈیا سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے اس انسانیت سوز ظلم و جبر پر خاموشی کی بجائے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بنا کر پاکستان بھیجےاور بلوچستان کے مختلف علاقوں سے برآمد ہونے والے اجتماعی لاشوں کی اپنے نگرانی میں ڈی این اے کروائے۔