مذاکرات میں پیش رفت کےلئے طالبان نے قطر دفتر کا سربراہ تبدیل کردیا

193

افغان طالبان کے شریک بانی ملا عبدالغنی برادر کو قطر میں قائم طالبان کے سیاسی مرکز کے سربراہ کے طور پر نامزد کرلیا گیا۔

بین الاقوامی خبررساں ایجنسی کے مطابق اب وہ افغانستان میں 17 سال سے جاری خون ریز جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے اہم کردار ادا کریں۔

 طالبان  ذرائع کا کہنا ہے کہ ملا عبدالغنی برادر کو گزشتہ برس اکتوبر میں پاکستان کی جیل سے رہا کیا گیا تھا اور اب انہیں افغان طالبان کی سیاسی ٹیم کی قیادت کرنے اور فیصلہ سازی کے اختیارات دے دیے گئے ہیں۔

اس سلسلے میں طالبان کی جانب سے ایک بیان بھی جاری کیا گیا جس میں ملا عبدالغنی برادر کی تعیناتی اور امریکا کے ساتھ جاری مذاکرات کی رفتار تیز کرنے کے لیے سینیئر رہنما کو اہم ذمہ داری سونپنے اور مذاکراتی ٹیم میں ردو بدل کرنے کا اعلان کیا گیا۔

طالبان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ’یہ اقدام امریکا کے ساتھ جاری مذاکرات کو مضبوط کرنے اور اس عمل کی بہتر طور پر انجام دہی کے لیے اٹھایا گیا‘۔

اس سلسلے میں امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد اور طالبان کے درمیان جاری مذکرات کا دو روزہ سلسلہ گزشتہ روز چوتھے دن میں داخل ہوگیا۔

تاہم یہ ابھی واضح نہیں کہ عبدالغنی برادر مفاہمتی عمل میں کب شمولیت اختیار کریں گے اور آیا مذاکرات آج (جمعے) کو بھی جاری رہیں گے یا نہیں۔

اس ضمن میں ایک سینئر طالبان رہنما کا کہنا تھا کہ چونکہ امریکا چاہتا ہے کہ مذاکرات میں طالبان کی سینئر قیادت شریک ہو چنانچہ عبدالغنی برادرکو نیا منصب سونپا گیا اور وہ جلد مذاکرات کا حصہ بننے کے لیے قطر پرواز کر جائیں گے۔

واضح رہے کہ ملا عبدالغنی برادر نے ملا عمر کے ساتھ مل کر تحریک طالبان کی بنیاد رکھی تھی اور وہ 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے سے قبل طالبان حکومت کا اہم حصہ تھے۔

انہیں فروری 2010 میں پاکستان کی آئی ایس آئی اور امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) نے مشترکہ کارروائی میں کراچی سے گرفتار کیا تھا۔

جس کے بعد گزشتہ برس 12 اکتوبر کو زلمے خلیل زاد کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں طالبان کے مطالبے پر متعدد دیگر طالبان رہنماؤں کو رہا کیا گیا، جن میں ایک ملا عبدالغنی بھی تھے۔

سیکیورٹی ماہرین نے ان کی رہائی کو زلمے خلیل زاد اور طالبان کے درمیان ہونے والی اعلیٰ سطحی بات چیت کا نتیجہ قرار دیا تھا۔

واضح رہے کہ امریکا کے طویل ترین جاری تنازعے کا سیاسی حل نکالنے کے لیے سفارتی کوششیں نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد ک تعیناتی کے بعد گزشتہ برس کافی تیز ہوگئی تھیں۔

افغان نژاد امریکی نمائندہ خصوصی اب تک طالبان کے ساتھ مذاکرات کے 4 دور کرچکے ہیں۔