بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی مرکزی ترجمان نے اپنے بیان میں ریاست پاکستان کی جانب سے کوئٹہ سے لاپتہ بلوچ طالب علم حسنین ولد عبدالقیوم بلوچ کی گرفتاری کو کراچی سے ظاہر کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ریاست اپنے گھناونے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے کم سن بلوچ طالب علموں کو جھوٹے کیسوں میں پھنسا کر ان پر تعلیم کے دروازے بند کرنے کی سازشوں پر عمل پیرا ہے تاکہ ایک طرف بلوچ طالب علم تعلیمی اداروں سے دور رہیں اور دوسری طرف چالیس ہزار سے زائد لاپتہ افراد کے کیس کو سرد خانے کی نذر کر سکے۔ لاپتہ حسنین بلوچ کی گرفتاری کو کراچی سے ظاہر کرنا دراصل اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
بلوچستان سے بلوچ فرزندوں بالخصوص بلوچ طالب علموں پر کریک ڈاؤن اور ماورائے عدالت قتل عام دیرینہ ریاستی پالیسیوں کا اہم حصہ رہا ہے اور اب اس غیر قانونی عمل کو قانونی ثابت کرنے کے لئے لاپتہ بلوچ طالب علم کو دہشتگرد ظاہر کرنا دو دہائیوں سے جاری ریاستی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ 30 نومبر 2018 کو رات کے دو بجے خفیہ اداروں نے کوئٹہ کے علاقے سے حسنین بلوچ کو انکے والد اور بڑے بھائی جئیند ولد عبدالقیوم کے ہمراہ گھر سے اٹھا کر لاپتہ کردیا تھا۔حسنین بلوچ اور انکے بھائی کی جبری گمشدگی کے خلاف یکم دسمبر 2018 کو انکی فیملی کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس بھی کیا گیا اور 7 دسمبر 2018 کو حسنین اور جئیند بلوچ کی بازیابی کے لئے احتجاجی مظاہرہ بھی کئے گئے جس کا ریکارڈ میڈیا میں بھی موجود ہے لیکن اسکے باوجود تمام حقائق پر پردہ ڈالتے ہوئے ایک لاپتہ طالب علم کو دہشت گرد ظاہر کرنا انسانیت کے خلاف ایک نازیبا اور غیر انسانی عمل ہے۔
ریاست کے عسکری و سول ادارے بلوچوں کی جبری گمشدگی اور انکے ماورائے عدالت قتل میں متحد ہو کر اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں اور اس عمل میں میڈیا بھی صحافتی اصول و اقدار کو منوں مٹی تلے دبا کر ریاستی ہمنوائی کا فریضہ پورا کررہی ہیں۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ عالمی انسانی حقوق کے ادارے بلوچستان میں بلوچ فرزندوں اور بلوچ طالب علموں کی زندگیوں کو بچانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائیں اور بلوچستان میں انسانی بحران کو جنم دینے والے ریاستی سول و عسکری اداروں کو عالمی انصاف کے کہٹرے میں لائے تاکہ بلوچ فرزند بلا کسی خوف و خطر اپنے سر زمین پر اپنی سیاسی، تعلیمی ، سماجی و معاشی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔