لاوارث نہیں، یہ میری لاش ہے ۔ لطیف بلوچ

835

لاوارث نہیں، یہ میری لاش ہے۔

تحریر: لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اکثر سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا پر خبر پڑھنے کو ملتی ہے کہ مقبوضہ بلوچستان کے فلاں علاقے سے ایک لاش برآمد ہوئی، لاش کو اسپتال منتقل کیا گیا، جس کو سر اور سینے یا جسم کے دیگر حصوں میں گولیاں مار کر قتل کیا گیا ہے اور پھر کچھ روز گذرنے کے بعد پھر میڈیا پر خبر پڑھنے کو ملتی ہے کہ ایدھی رضا کاروں نے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ملنے والی لاوارث لاشوں کو دفنا دیا، سوچنے کی بات ہے لاشیں کس طرح لاوارث ہوگئے، یہ کس نے طے کیا کہ یہ لاشیں لاوارث ہیں؟ ان کو کسی بھی قبرستان میں سپردخاک کیا جائے، کیا ملنے والی لاشوں کی متعلق اخبارات میں کوئی اشتہار وغیرہ جاری کیا گیا؟ جس علاقے سے لاش مل جاتی ہے کیا وہاں سے لاپتہ نوجوانوں کے لواحقین کو شناخت کے لئے بلایا جاتا ہے؟ اگر ملنے والی لاش کے وارث اُس علاقے میں نہیں ملتے جس علاقے سے لاش ملی ہے، کیا بلوچستان کے دیگر علاقوں سے لاپتہ ہوئے افراد کی لواحقین کو شناخت کے لئے بلایا گیا؟ کیا لاش کی شناخت کے لئے ڈی این اے ٹیسٹ یا دیگر ذرائع سے کھوج لگانے کی کوشش کی گئی ہے؟ کیا لاش کی تصاویر سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر جاری کی گئی ہیں؟ مارنے والے نے مار کر لاش پھینک دی، پولیس نے لاش برآمد کرکے اسپتال پہنچا دی اور صحافی نے ایک کالمی خبر جاری کیا اور پرنٹ میڈیا نے اخبار کے کسی کونے میں ایک کالمی خبر چھاپ دیا کہ ایک لاش ملی ہے سب نے اپنا اپنا ذمہ داری پورا کردیا لیکن یہ ایک لاش نہیں بلکہ ایک خاندان کے ارمان، خواہشات، زندگی، خوشی ہے، ملنے والی لاش محض ایک لاش نہیں بلکہ کسی کا بیٹا، کسی کا بھائی، کسی کا باپ اور کسی کا شوہر ہوگا، اس لاش کیساتھ ایک ماں کی خوشیاں، ایک بہن کے ارمان، ایک بھائی کے توقعات، ایک بیوی کی زندگی اور بچوں کے خواہشات اور خوشیاں چھین جاتی ہیں، ماں، بہنیں، بھائی، بیوی بے سہارا اور بچے یتیم ہوجاتے ہیں ایک پوری خاندان کے خواہشات، احساسات اور خوشیوں کا قتل ہوتا ہے۔

اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی عالمی تنظمیں، انسان دوست مہذب ممالک بلوچستان میں لاشوں کی برآمدگی کا نوٹس لیتے ہوئے تمام دفنائے گئے لاشوں کی ڈی این اے ٹیسٹ کروائیں، خفیہ اداروں کے ہاتھوں دوران تشدد کئی بلوچ بزرگ و نوجوان شہید ہوئے ہیں، جنکی لاشوں کو لاوارث قرار دے کر دفنایا گیا ہے، 2014 انسانیت کو شرمانے والا ایک واقعہ رونما ہوا، جب بلوچستان کے علاقے توتک سے اجتماعی قبر سے 187 لاشیں برآمد ہوئی لیکن بغیر تحقیق اور ڈی این اے لاشوں کو دوبارہ دفنایا گیا۔ بلوچستان کی سرزمین دیگر وسائل کیساتھ ساتھ لاشیں بھی اگلتی ہے۔

بلوچستان کے لوگ گذشتہ 70 سالوں سے کرب، تکلیف، درد اور غم کے کیفیت سے گذر رہے ہیں، اذیتیں برداشت کررہے ہیں، بلوچستان سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ لاپتہ ہیں، گھر گھر میں غم و ماتم ہے جہاں سے بھی کوئی لاش ملتی ہے اُن گھروں میں قیامت برپا ہوتا ہے، جن کے لخت جگر لاپتہ ہیں، وہ زندگی کے تمام رنگ اور خوشیوں کو بھول چکے ہیں، بس وہ دن رات اس انتظار میں ہیں، اُن کا لخت جگر کب زندہ یا لاش بن کر گھر پہنچتا ہے، وہ لوگ بھی اپنے آپ کو خوش نصیب تصور کرتے ہیں۔ جن کے بچوں کی لاشیں مل چکی ہیں لیکن وہ لوگ اور خاندان ہر لمحہ سسک سسک کر مرتے ہیں جن کے بچوں کا کچھ اتہ پتہ نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا مار دیئے گئے ہیں، انتظار کی ہر گھڑی اُن کے لئے درد و اذیت سے کم نہیں لیکن ہمارے لیئے ملنے والی لاش ایک لاوارث لاش ہوتی ہے۔

لاش کس طرح لاوارث ہوئی؟ وہ ضرور اس دھرتی کا کوئی فرزند کسی بدنصیب ماں کا لخت جگر ہوگا، جس کو کسی آپریشن، کسی روڈ، شہر اور گاوں سے آدم خور، خونی درندوں نے اُٹھایا ہوگا، کسی گم نام کالی کوٹھڑی میں اذیت دے کر، نوچ نوچ کر مار دیا ہوگا، پھر کسی ویرانے میں پھینک کر لاوارث قرار دے کر ایدھی کے حوالے کیا گیا ہوگا، لاش اپنے مخصوص حلیے سے خود اپنی شناخت اور علاقے، قوم و قبیلہ کا پتہ دیتا ہوگا لیکن وحشی اور درندہ صفت جانوروں کو اُنکے خاندانوں کو مزید درد اور تکلیف میں مبتلا کرنے میں مزہ اور لطف محسوس ہوتی ہے، مارنے والے کو لاش کی شناخت، علاقہ اور خاندان کا پتہ ہوتا ہے لیکن وہ اپنی درندگی دکھانے کے لئے اس طرح کی لرزہ خیز، انسانیت سوز سلوک اپناتا ہے۔

کوئی انسان، کوئی لاش لاوارث نہیں وہ اس دھرتی کے فرزند ہیں، وہ کسی بلوچ، کسی پشتون، کسی سندھی کی لاش ہے جس کو ظالم بیدردی سے قتل کرکے لاوارث قرار دیتے ہیں۔

اے درندے، اے وحشی، خونخوار جانوروں تم نے ایک زندہ شخص کو اُٹھایا، کالی کوٹھڑی میں اُس کے جسم کے گوشت نوچ نوچ کر اذیت، تکلیف دے کر قتل کردیئے لیکن پھر بھی تمہارا نفرت ختم نہیں ہوا۔ کسی مسخ شدہ لاش کو ویرانے میں میں پھینک کر لاوارث قرار دیا، کیا اس طرح نفرت، ظلم اور جبر سے تم بلوچستان کے لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کرو گے، اُنھیں خاموش کرو اپنی غلامی قبول کرادو، ہرگز نہیں کرسکو گے، تم سمجھتے ہو لاشیں گرانے سے بلوچ آزادی کی طلب سے دستبردار ہونگے لیکن یہ ذہن نشین کرلو ہر لاش بلوچوں کو اُن کی منزل کے قریب تر کررہا ہے، تم نے لاشیں گرا کر بنگالیوں کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کیں تھیں لیکن لاغر بدن بنگالی تم سے اپنی آزادی چھیننے میں کامیاب ہوئے اور آج آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں اور بلوچ بھی اپنی آزادی تم سے چھین لینگے۔

ہاں اور سُنو یہ لاش لاوارث نہیں یہ میری لاش ہے، مجھے مار کر لاوارث قرار دے کر دفنا دو گے لیکن میری لاش سے میرا شناخت نہیں چھین سکو گے۔ مجھے میری جننے والی ماں سے چھین کر جہاں بھی دفنا دو میں اپنی ماں کی آغوش میں ہی آسودہ خاک ہوجاو نگا کیونکہ یہ دھرتی میری مادر وطن ہے۔۔۔ یہ دھرتی میری ماں ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں ۔