فدائین وطن – لطیف بلوچ

368

فدائین وطن

لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

گندمی رنگت، گھنے لمبے بال، جھیل جیسی آنکھیں، ہنستا و مسکراتا، خوش مزاج چہرہ بابر جس کا میں ذکر یہاں کررہا ہوں، وہ بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں کے دامن میں پانی کے چشمے کے قریب اکیلا بیٹھ کر کچھ سوچ رہا تھا، کبھی صاف و شفاف پانی میں پتھر پھینکتا، کبھی آسمان پر ستاروں کو تکنے لگتا۔ رات کا دوسرا پہر تھا، ہر طرف گہری خاموشی اور سناٹا چھایا ہوا تھا۔ خاموشی اور سناٹے میں پانی کی ہرسوں پھیلی سرُیلی آواز سے ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی گیت سُنا رہا ہو، اور وہ خاموشی سے گیت سن رہا تھا اور کبھی کبھی آسمان کی طرف یوں دیکھتا، جیسے وہ تاروں سے باتیں کررہا ہو، اُن کو اپنے دل کا حال سُنا رہا ہو۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اپنے ساتھیوں سے ہمکلام ہے، جو کبھی رات کے اس پہر میں اُس کیساتھ چشمے کے قریب بیٹھ کر ایک دوسرے کو حال دل سُناتے، اپنے ماضی کے قصے ایک دوسرے کو سُناتے، حال کے بارے میں بات کرتے اور مستقبل کے بارے میں سوچتے تھے، زندگی کی نشیب و فراز کو بیان کرتے۔

آج بابر اکیلا بیٹھ کر سوچ رہا تھا، وہ روشن آسمان میں، چمکتے ستاروں میں، کہکشاؤں کی جھرمٹ میں ریحان، رازق ،ازل اور رئیس کو ڈھونڈ رہا تھا۔ اُن سے بات کرنا چاہا رہا تھا، اپنا حالِ دل سُنانا چاہتا تھا۔ وہ چشمے کے پانی میں اُن کے عکس ڈھونڈنے کی کوشش کررہا تھا، ریحان کا ہنس مکھ چہرہ، رازق کی لطیفے اور ہنسی مذاق، ازل کا وہ کھلتا چہرہ اور رئیس کے آنکھوں کی سُرخی اور ہونٹوں کی جنبش پانی کی شفاف گہری سطع پر نظر آرہے تھے۔

چشمے کا پانی پہاڑ سے نیچے آبشار بن کر گر رہا تھا اور آبشار کی آواز میں وہ رازق کے قہقہوں کو محسوس کررہا تھا اور خود بھی مسکرا رہا تھا اور کہہ رہا تھا، ہم ملیں گے ان تاروں میں، پانی کی آبشاروں میں، انہی پہاڑوں میں۔ وہ کبھی پانی کو دیکھتا، کبھی تاروں کو تکتے تکتے کہہ رہا تھا آج میں یہاں بیٹھ کر تمہارے ساتھ باتیں کررہا ہوں، اپنا حالِ دل سُنا رہا ہوں، میں تم لوگوں کے پاس آونگا، کل یہاں کوئی اور راہ گزار اس راہ پر بیٹھ کر اپنا حال دل ہمیں سُناتا ہوگا، وہ بے بس نہیں ہوگا بلکہ ہماری طرح آزاد فکر ہوگا، وہ بھی زندگی اور سماج کے بندشوں سے آزاد ہوگا۔ جبر کی رسم کے سامنے سر نہیں جھکائے گا اُس کیساتھ ایک جذبہ ہوگا، ایک مقصد ہوگا، وہ فدائین وطن ہوگا۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں ۔