پاکستان پر واجب الادا قرضہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا ، تبدیلی سرکار نے ابتدائی چار ماہ میں 1762 ارب روپے کے قرضے لے لیئے ، نئے قرضوں کے ساتھ ہر پاکستانی پر واجب الادا قرضہ بڑھ کر ایک لاکھ 27 ہزار روپے ہوگیا۔
دی بلوچستان پوسٹ ویب ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق پاکستان اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ دستاویز کے مطابق مالی سال کے ابتدائی 5 ماہ میں قرضوں میں 2240 ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ، اس کے ساتھ ہی حکومت کے ذمہ قرضوں کا حجم بڑھ کر 26452 ارب روپے ہوگیا۔ یہ قرضہ پچھلے سال کی نسبت 21 فیصد زیادہ ہے۔
دستاویز کے مطابق جولائی تا نومبر 2018 تک بیرونی قرضے 1334 ارب روپے بڑھ گئے تھے، جبکہ اس دوران حکومت کے اندرونی قرضوں میں 861 ارب کا اضافہ ہوا ۔ نومبر 2018 کو ہمارا غیرملکی قرضہ 9129 ارب روپے تھا جبکہ ملکی قرضہ 17322 ارب روپے تھا۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق تبدیلی سرکار نے ابتدائی 4 ماہ میں 1762 ارب روپے کے قرضے لئے ۔
پاکستان کے ان قرضوں کو پاکستانیوں نے ہی ٹیکسوں کے ذریعے ادا کرنا ہیں۔ یہ ٹیکسز ہماری تنخواہوں سے منہا کیے جائیں گے۔ ہم اپنی گاڑیوں میں جو ایندھن ڈلواتے ہیں یا کچھ بھی خریداری کرتے ہیں ہماری ہر خریداری پر سے ٹیکسز کاٹ لیے جاتے ہیں۔
روپے کی گرتی قیمت اور تیل کی بدلتی قیمتوں سمیت متعدد عوامل کی وجہ سے حکومت کو دہرے نقصان کا سامنا ہے ، ملک کی کمائی ایک ڈالر ہے مگر خرچ دو ڈالر کیے جارہے ہیں۔
ملک کو 2.12 کھرب روپے کے بجٹ خسارے اور 18.9 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کو ملکی اور غیرملکی قرضوں پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔
پاکستان نے 60 فیصد سے زیادہ پیسہ گذشتہ سال غیرملکی اداروں اور حکومتوں سے ادھار لیا۔ ان قرضوں کا مقصد وحید ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو اتنا بلند رکھنا تھا تا کہ ملک ڈیفالٹ سے بچ سکے اور اہم درآمدات کی ادائیگیاں کی جاسکیں۔