طوبوب اور خلائی مخلوق کا مشترکہ اساس ۔ لطیف بلوچ

299

طوبوب اور خلائی مخلوق کا مشترکہ اساس

لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

ایلکس ہیلی اپنے شہرہ آفاق ناول اساس (Roots) میں ایک عجیب و غریب وحشی مخلوق کا ذکر کرتا ہے، جنہیں وہ طوبوب کا نام دیتا ہے، طوبوب افریقہ کے ملک گیمبیا کے گاوں جفورے کے جنگل اور گاوں سے لوگوں کو اُٹھا کر غائب کرتے ہیں، لوگوں کو کیوں اُٹھاتے ہیں، کہاں لیجاتے ہیں، اُن پر کیوں تشدد کرتے ہیں، یہ جفورے کے لوگوں کے لئے ایک معمہ تھا، طوبوب عورتوں کو بھی اُٹھا کر لیجاتے، اُنھیں برہنہ کرکے جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانے بناتے، اُنھیں زنجیروں سے باندھ کر رکھتے اس طرح مرد قیدیوں پر بھی بدترین تشدد کرتے تھے۔

افریقہ غلامی اور نسل پرستی کے بدترین دور سے گذر چکا ہے، افریقہ معدنیات سے مالا مال ہے اور نو آبادیاتی دور میں اسی دولت نے اسے غلامی کے طویل دور میں دھکیل دیا۔ ایلکس ہیلی کا ناول اساس اس نوآبادیاتی جبر اور غلامی کی دردناک اور طویل داستانوں پر محیط ہے کہ کس طرح افریقہ میں انسانوں کو ظلم، تشدد اور وحشی پن کا نشانہ بنایا جاتا، غلامی اور جبر کے اس دور میں افریقہ سے لاکھوں انسانوں کو غلام بناکر کر منڈیوں میں فروخت کرنے کے لئے پیش کیا گیا، انسانوں کی خرید و فروخت ہوتی رہی اور اُن کو خرید کر اُن سے مشقت کرایا جاتا، اُنھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا بلاشبہ یہ عہد غلامی، جبر اور نسل پرستی کا بدترین عہد تھا، اس عہد میں انسانوں پر بدترین اور انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے، یہ انسانی تاریخ کا بدترین دور تھا، جب نسلی امتیاز کے بنیاد پر انسانوں سے نفرت کیا جاتا تھا، اُنھیں کم تر تصور کیا جاتا تھا، رنگ اور نسل کے بنیاد پر امتیازی سلوک روا رکھا جاتا تھا، اُنکے بنیادی انسانی حقوق سلب کئے گئے تھے، طویل کھٹن سفر، جہد مسلسل، تکلیفوں اور ازیتوں کے بعد افریقہ اس دورِ غلامی سے آزاد ہوا لیکن انسان آج بھی مختلف طریقوں سے نوآبادیاتی قوتوں کے زیر عتاب ہے۔

طوبوب آج بھی انسانوں کو اُٹھا لے جاتے ہیں، ظلم و جبر، بربریت، وحشت، لوٹ مار، انسانی تہذیب کو کچلنے کا سلسلہ آج بھی مختلف طریقوں سے جاری ہے، اکیسویں صدی میں بھی غلامی اور جبر کا راج قائم ہے، گیمبیا کے جفورے سے سفید فام طوبوب انسانوں کو اُٹھا کر لیجاتے، بلوچستان کے گاوں اور شہروں سے خلائی مخلوق لوگوں کو اُٹھا کر لیجاتے ہیں، اُن پر بے رحمانہ انسانیت سوز تشدد کرتے ہیں، انتہائی بے رحمی سے لوگوں کو قتل کرکے پھینک دیتے ہیں، افریقا کے لوگوں کی غلامی کا سبب وہاں کے وسائل تھے اور بلوچستان کے لوگوں پر ظلم و جبر کے سبب بھی وسائل ہیں، بلوچ سرزمین کی جیو پولیٹیکل، جیو اسٹرٹیجک اور جیو اکنامک اہمیت و حیثیت یہاں کے لوگوں، سامراجی تسلط اور نوآبادیاتی قبضہ گیری و جبر کے سبب بن رہے ہیں، بلوچ سرزمین کے وسائل اور ساحل پر دنیا کی نظریں مرکوز ہیں، عالمی طاقتیں بلوچ ساحل پر قبضہ کرنے اور یہاں بیٹھ کر دنیا خصوصا جنوبی ایشیاء، وسطی ایشیاء اور گلف پر اپنی سیاسی، فوجی اور اقتصادی اجارہ داری قائم کرنے کے خواہش مند ، اپنی ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے خطے میں کشت و خون کا بازار گرم رکھے ہوئے ہیں، عالمی طاقتوں کی آپسی چپقلش میں بلوچستان سینڈوچ بن چکا ہے اور طاقت کی اس جنگ میں بلوچ سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں، بلوچ قوم کی انسانی، سیاسی، سماجی، معاشی استحصال اور نسل کشی ہورہی ہے۔

عالمی قوت اپنی دشمنی اور جنگ کا مرکز بلوچستان کے سرزمین کو بناچکے ہیں، اس وقت بلوچستان ایک پراکسی وار زون بن چکا ہے، مختلف عالمی طاقتوں نے اپنی پراکیسز، ڈیتھ اسکواڈز کے علاوہ مذہبی ایلمنٹس کو متحرک کیا ہوا ہے، پاکستان و پنجاب کی مقتدرہ اپنے معاشی مفادات حاصل کرنے کے لئے جنگی سہولت کار کا کردار ادا کررہے ہیں۔ خلائی مخلوق پنجاب کے معاشی مفادات کے لئے دیگر مظلوم اقوام کو ظلم و جبر کا نشانہ بنارہے ہیں، جس طرح گیمبیا میں طوبوب یہ کارنامہ انجام دیتے ہیں، خلائی مخلوق بلوچستان میں ہزاروں لوگوں کو اُٹھا کر لے گئے جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں، آئے روز اپنے مظالم اور انسانیت سوز کاروائیوں میں شدت لا رہے ہیں، خلائی عقوبت خانوں میں لوگوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بناکر قتل کیاُ جاتا ہے اور اُنکے تشدد شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینک کر جانوروں کا خوراک بنایا جاتا ہے۔

جفورے کی طرح بلوچستان کے بستیوں سے ہزاروں کی تعداد میں انسان لاپتہ ہیں، کسی کو کچھ پتہ نہیں وہ کہاں ہے کس حالات میں ہیں، زندہ ہیں یا مار دیئے گئے ہیں، لوگ نہ خوشی مناسکتے ہیں، نہ ماتم، بے بسی کی تصویر بننے، کسی مسیحا کے انتظار میں بیٹھے ہیں، خلائی مخلوق کی قید سے جو آزاد ہوتے ہیں، وہ خوف کے مارے بات نہیں کرسکتے۔ دیگر گمشدہ لوگوں کی بات کرنا تو درکنار وہ اپنے اوپر ڈھائے گئے مظالم کے بارے میں نہیں بتا سکتے، وہ ذہنی اور جسمانی طور اپاہج ہوتے ہیں، نیم مردہ حالت میں اُن کو چھوڑا جاتا ہے لیکن پھر وہ اور اُس کے خاندان اپنے آپ کو خوش نصیب تصور کرتے ہیں۔

گذشتہ روز بی ایس او کے چیئرمین اور اُس کے ساتھی خلائی مخلوق کی قید سے آزاد ہوئے تو اُس نے فیس بک اسٹیٹس پر لکھا تھا کہ ہم خلاء سے دوبارہ زمین پر اُتارے جاچکے ہیں۔

لوگوں کو اُٹھانا اُن پر تشدد، قتل،عورتوں کو برہنہ کرکے جنسی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنانا طوبوب اور خلائی مخلوق کامشترکہ اساس ہے۔ اُن کے رویوں، کاروائیوں، انسانی تذلیل،انسانی آزادیوں کو سلب کرنے کے گھناونے عمل میں مکمل مماثلت پائی جاتی ہے۔ انسان صدیوں کی مسافت طے کرکے اکیسویں صدی میں داخل ہوچکے ہیں، علم، عقل و دانائی، سائنس و ٹیکنالوجی کے اس صدی میں بہت سی چیزیں بدل گئے لیکن انسانوں کو غلام بناکر رکھنے، طوبوب اور خلائی مخلوق کا کردار آج بھی رائج ہے آج اس جدید، ترقی یافتہ دور میں بھی انسان بدترین استحصال،مظالم، تشدد اور بندشوں کا شکار ہے جس طرح زمانہ جہالت میں وہ شکار تھے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔