شہید شہزاد عرف آصف کی یادیں
گزی بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کہتے ہیں جو ہم سے بچھڑ جاتے ہیں وہ پھر فضا میں تحلیل ہو جاتے ہیں، وہ بادلوں کا حصہ بنتے ہیں، ہواوں میں ضم ہوجاتے ہیں۔
مختصر یہ کہ اس دنیا میں جسمانی ساخت یا مادی اشیاء کی کوئی حیثیت نہیں، انہیں لازما فنا ہوجانا ہے، کردار، اعمال اور نظریات ہی وہ ہستی ہیں، جو تا ابد حیات رہتی ہیں، جن کے بنا پر لوگوں کو یاد رکھا جاتا، پہچانا جاتا اور پکارہ جاتا ہے۔
ویسے میرے بلوچستان کی تاریخ، تہذیب، ادب، شاعری جنگی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ یہاں پر وطن زادوں کی کبھی کمی نہیں رہی ہے کچھ آسودہ خاک ہیں، کئی زندانوں میں قید ہیں، کئی گمنام ہوچکے ہیں اور بے شمار بلوچستان کی مات کوہوں میں سرگرم عمل ہیں، جو دشمن پر قہر بن کر برس رہے ہیں۔
جنگ آزادی کی اس جہد مسلسل میں ہزاروں بلوچ ورنا شہید ہوکر تاریخ میں سرخرو ہو چکے ہیں انہی شہیدوں، وطن زادوں اور وطن کے شے مریدوں میں سنگت شہید شہزاد عرف آصف بلوچ بھی شامل ہیں، سنگت آصف کے ساتھ بہت سارا وقت گذارنے سنگت کا ہمسفر و ہمگام رہنے کا اعزاز مجھ ناچیز کو حاصل ہے۔
شہید آصف جان میں کیا بیان کروں آپکو، آپکی جدو جہد، کردار و عمل، مخلصیت، گلزمین سے مہر شاید میں اس اہل نہیں کہ سنگت کو مکمل طور پر اپنے لفظوں میں بیان کروں، مگر جتنا وقت میں نے شہید کے ساتھ گذارا ہے سنگت نے مجھے جتنا سمجھایا اور میں جتنا سنگت کا ہمسفر رہا اس سے سیکھا ‘تو میں نے آصف جان کو ایک وطن دوست پایا، انتہائی مخلص جس کو تنظیم کے ہر کام سے لگاو تھا۔
طویل مسافت میں دسمبر کے اس خون جمادینے والی سردی میں بھی میں نے سنگت کو پسینے سے شرابور پایا، میں نے کبھی اسے مایوس نہیں دیکھا، وہ اکثر طویل گشتوں کے دوران مجھے اپنے ساتھ رکھتا اور سمجھاتا کہ تحریک اور سرمچاری میں دکھ، خواری، تکالیف، ہماری انتخاب کردہ ہیں۔ اس نے بتایا پہلے بہت سارے سنگتنوں نے شوق سرمچاری اور شہرت کیلئے پہاڑوں کا رخ کیا، مگر یہاں کی تکالیف کو دیکھ کر باقی جو اپنے خواہشوں کا گلا گھونٹ نہیں سکتے، وہ راہ فرار اختیار کرتے ہیں۔
شور کی دشواریاں اور یہاں محاذ پر ٹکنا مکران سے بہت مختلف ہے، یہاں طویل گشتیں کرنی پڑتی ہیں، یہاں بڑے اونچے ماتکوہ ہیں، جہاں پر پیدل سنگت اپنے تمام کام سرانجام دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ شہید آصف جان میرے لیے ایک سنگت کے ساتھ ایک استاد بھی رہا ہے، پہلے پہل ایک شام، میں سنگتوں سے دور ایک جگہ پر اداس بیٹھا تھا کہ سنگت نے مجھے دیکھا تو وہ سمجھ گیا کہ میں کچھ اداس ہوں، سنگت نے مجھے سمجھانا شروع کیا کہ جہدکار جب ذہنی حوالے سے ہر چیز کیلئے تیار اور مستقل مزاج رہے تو کچھ بھی مشکل نہیں ہوگا، جنگیں ذہنوں سے شروع ہو کر ذہنوں میں ختم ہوجاتی ہیں۔ سنگت کے کچھ الفاظ جو مجھے تاحیات یاد رہینگی، وہ یہ ہیں کہ ایک گوریلا کے ساتھ نمک ماچس knife اور چینی ہر وقت ہونی چاہیئے کیونکہ حالت جنگ میں کہیں بھی ہم جنگی صورتحال سے دوچار ہوسکتے ہیں اور ساتھیوں سے بچھڑ سکتے ہیں۔
وہ اکثر کہتا کہ بہار اور گرمیوں میں شور بہت دلکش ہوگا، ہر طرف بہار ہوگی اور گواڑخ بھی ہونگے، مگر سنگت آصف اب کے بہار میں آپ ساتھ نہیں ہونگے
ایک گشت کے دوران رات کو سونے کے وقت وہ میرے پاس آیا سونے کا جگہ بنایا اور کہا کہ بندوق اپنے دائیں جانب سر کے بلکل قریب رکھنا ہے، ایک اور جگے پر ہم کچھ سنگت بیٹھے مجلس کر رہے تھے تو آصف نے بتایا کہ ہمارے لئے تمام بلوچ شہداء عظیم ہیں لیکن ہر جہدکار کا کوئی آئیڈیل ہوتا ہے اور کہا کہ میرا شہید امیر الملک ہے۔
ایک دن میں نے اس سے شادی کے حوالے سے پوچھا تو بولا ہاں میں شادی کر رہا ہوں، پتہ ہے کس سے؟ اور بولا کہ شور پارود سے وہ اس قدر وطن کا شیدائی تھا، اس کے ان الفاظ کے کچھ دن بعد ہی وہ وطن کیلئے (سالونک) شہید ہوا۔
سنگت آصف جان ایک بہت اچھے singer بھی تھے اور گشت ہوتے یا مرکز وہ ہر رات وتاخ کے مجلس میں بلوچ شہیدوں کیلئے نازینک گاتا، وہ اکثر شہید جاوید، شہید حق نواز، شہید عرفان، شہید داود، شہید سلمان، شہید امیر جان کے نام سے شعر ندر کرتا
شہید آصف کی مہروان آواز آج بھی شور کے وادیوں میں گونجتی ہے۔
شہادت سے ایک دن پہلے میں اسکے ساتھ رہا اس دن اس نے بہت شغل کیا، اس نے غسل کیا اور بال بنوائے، بولا یہ شہید امیر جان کا اسٹائل ہے۔
شام کو چائے پینے کے بعد سنگت آصف اور ماما جان ہم سے رخصت ہوئے، مجھے گمان بھی نہیں تھا کہ وہ دوبارہ نہیں آئینگے۔ شہید ماما نجیب نے بولا کہ کل وقتی اٹھنا ہے اور 2بجے تک نیٹورک پر جانا ہے۔
10 جنوری کی صبح کو متعلقہ علاقے سے مارٹروں کی آواز نے ہمیں بیدار کیا تب بہت دیر ہوچکی تھی، شہید آصف اور ماما کو دشمن نے رات 3 بجے گھیرے میں لے لیا اور بندوق پھینکنے کی پیشکش کی، مگر وطن زادوں نے اپنے محدود وسائل کے ساتھ دشمن سے جنگ لڑی، جہاں سنگت آصف دشمن کی گولیاں سینے مین کھا کر شہادت حاصل کی اور تاریخ میں ایک روشن نام کما کر امر ہوگیا شہید ماما کی گولیاں ختم ہوئیں تو آخری گولی اپنے نام کردیا۔
ماما اور آصف کی شہادت کی پوری خبر آئی تو مجھے وہ جملہ یاد آگیا کہ جو ہم سے بچھڑتے تو فضا اور بادلوں کا حصہ بنتے ہیں اور ٹھیک وقت آسمان میں بادل نظر آنے لگے، میں نے من ہی من میں خود سے بہت باتیں کیں اور تبھی بارش شروع ہوئی،
اسی رات ہم نے ایک اور طویل سفر چاند کی روشنی کی مدد سے طے کیا، جہاں پورا سفر میں خیالوں اور یادوں میں گم رہا۔
شہید آصف کی شاعری اسکے تعلیمات اسکے مزاق، سب ذہن کی دھلیز پر غالب رہیں اور شہید ماما وہ میرے لئے ایک والد، ایک دوست، ایک استاد اور ایک شغلی سنگت بھی رہا۔ اسکی ڈانٹ آج بھی یاد ہے، ماما کا مہر اور ڈانٹ مجھے ہمیشہ یاد رہینگے، ڈانٹ میں مہر تھا اور ڈسپلن بھی۔
آج میں شہید ماما اور آصف اور دیگر شہیدوں جنکے چیدگ اور قدم شور کی گھاٹیوں اور وادی میں نقش ہیں، انہی قدموں پر قدم رکھ کر آگے بڑھتا ہوں شور کی وادی میں زرگوات کی ہوا، شہیدوں کی خوشبو بکھرتی ہے اور سرخ گواڈخ بھی شہیدوں کے لہو کی نشانی ظاہر کرتے ہیں۔
اپنے ہمگام سنگتون کی شہادت یا بیگواہی انتہاہی دردناک ہوتی ہے انکی یادیں اندر سے رلاتی ہیں اور ساتھ ہی مجھے حوصلہ بخشتی ہیں، میں خود کو پہلے سے زیادہ سنجیدہ اور محکم محسوس کرتا ہوں کیونکہ میں انکے کاروان کا ہمسفر ہوں۔
” چتور من شموشت بان شہیدین گنگلان وتی اے ساہ دان روان کنت اے راہ دان روان اے آجوہی اے کاروان وتئ مرادء منزل ء’ ہمے وڑا روان کنت
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔