سچ کی جیت – میرک بلوچ

422

سچ کی جیت

میرک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

عوامل کی نفی عناصر کی نفی سے عناصر کی نفی سے عوامل کی نفی سے تضاداتی نفی سے ہم آہنگ ہوکر کبھی مربوط تو کبھی متزلزل کبھی ٹھوس تو کبھی سہیل۔ یہ جدلیات کے لازمی عناصر ہیں، لہذا کائنات اور انسانی دنیا ان ہی مجموعات کا مرکب ہے اور اس کو سمجھے بغیر کسی بھی شے کو سمجھنا ناممکنات میں ہے ۔

جدوجہد میں مختلف دورانیئے آتے ہیں ان میں بعض اوقات واقعات کی لڑیاں باہم مربوط ہوکر بھی جدا جدا نظر آتے ہیں۔ مگر ظاہری طور پر نظر آنے والی چیزیں آسان نہیں ہوتے، جن کی صورتیں ہمیں ایک جیسی لگتی ہیں ۔ پیچیدہ اشکال کو صورت و شکل دینا ایک سائنسی عمل و نظر کے بغیر ناممکن ہے۔ سنجیدگی ، بردباری ، تدبر و دانائی سے چیزیں جدا جدا ہوکر بھی مربوطی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں۔

یہ بات اب بلکل عیاں ہے کہ خطے میں رونما ہونے والے واقعات تذویراتی مضمرات کے ساتھ اثر پذیری سے گذر رہے ہیں۔ ان پیچیدگیوں کو نہ سمجھنا انتہائی تباہ کن اثرات کا سبب بن سکتے ہیں۔ عالمی طاقتیں اس وقت بہت ہی باریک بینی سے انتہائی منظم انداز میں آہنی پالیسیاں مرتب کرچکی ہیں۔ بین الاقومی طاقتوں نے مربوط انداز میں مستقبل کی پالیسیاں تیار کرلیں ہیں اور اس پر عمل درآمد شروع کرچکے ہیں۔

کسی طور پر بھی پرانی ڈگر پر رواں دواں رہنا تضادات پر غور نہ کرنا ،منظم نہ ہونا، تحقیق سے پرہیز کرنا ، مضمرات کی گہرائیوں میں نہ جھانکنا، اور بین الااقوامی و خطے کے حالات سے چشم پوشی کرنا ، یا پھر ان کو نہ سمجھنا اور اس بات کی کوشش نہ کرنا کہ پیش آنے والے حالات سے کیسے نمٹنا ہے۔ کم فہمی، بے شعوری ، اور جہالت کی واضح نشانیاں ہیں۔

موجودہ جاری قومی آزادی کی تحریک میں جوکہ اس وقت تقریباُُ 18 سال پوری کرچکا ہے بہت سے مراحل سے گذر کر اب بھی جاری و ساری ہے۔ گو کہ بہت سی کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود بھی سلسلہ رُکا نہیں ہے۔ اس تحریک میں انگنت لازوال قربانیاں بھی پیش کی گئی ہیں ۔ اور شہدا کا لہو اس بات کی گواہی ہے کہ اس تحریک کی اہمیت کسی بھی حوالے سے دوچند ہے تحریک اپنی تمامتر مضمرات کے ساتھ جاری ہے۔ بہت سی چیزیں واضح ہوئی اور بہت سی مزید شفاف ہوجائینگے جسکی بدولت حکمت عملی ترتیب دینا بہت آسان ہوگا۔ مگر یہ بات بہت ہی واضح ہوچکی ہے کہ پوری جاری تحریک کے دوران اگر سب سے شاندار اقدام نظر آیا ہے وہ استاد جنرل اسلم شہید کی زبردست ، بےباک ، شعوری ، بارونق، منظم اقدام جس نے نہ صرف قابض ریاست کی چوہلیں ہلادی بلکہ عالمی طور پر بھی اس کی باز گشت سنجیدگی سے سنی گئی یہ اقدام کوئی حادثاتی نہیں تھا بلکہ مکمل دیانت ،تدبر ، دانائی سے بھرپور ہے۔ اسکی ابتدا بھی جنرل اسلم شہید نے اپنے فرزند سے کی۔ یاد رہے شہید ریحان اپنے پورے ادراک اور پوری ہوشمندی ، بے پناہ شعور کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے فدا ہوئے ۔ یہ حملہ انتہائی فکر انگیز ہے کہ چین کے شاطرانہ پالیسی اور خودغرضانہ مفادات پر شدید اور تباہ کن اثرات مرتب کیا۔ اس میں یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہیکہ پاکستانی ریاست کا مکروہ پروپیگنڈہ کہ بلوچستان میں چند شرپسند بیرونی ممالک کی حمایت سے بدامنی پھیلا رہے ہیں زائل ہوگیا۔ کیونکہ کوئی بھی انسان صرف بیرونی ممالک کے مفاد کیلئے اپنی زندگی فدا نہیں کرسکتا۔ فدا کار بھی ایسے کہ پوری شعور کے ساتھ اپنی جان نچھاور کرے۔ زندگی ایک بار ملتی ہے اور کوئی بھی انسان اپنی زندگی کسی غیر کے حکم پر قربان نہیں کرتا۔

جنرل اسلم شہید کی منّظم حکمت اور شہید ریحان و چینی کونصلیٹ پر فدائی حملے کسی ان دیکھی جنت کیلئے نہیں تھے۔ بلکہ اپنی مادرگلزمین کی آزادی کیلئے تھے ۔ اس سے یہ بات بھی دنیا کے سامنے اور واضح ہوگئی کہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک مکمل طور پر ایک ایسی تحریک ہے جو بھرپور بنیادوں پر استوار ہے اور بلوچ قوم کی حقِ آزادی کی متقاضی ہے۔ جنرل اسلم شہید نے انتہائی دانائی سے ان مصلحت پسند رہنماؤں کو بھی ششدرہ و حیران کردیا جو یہ سمجھ کر بیٹھے تھے کہ تحریک کو جب چاہیں لپیٹ دینگے اور اپنے محدود قبائلی پرتوں کو لیکر الگ ہوجائینگے ۔ جنرل اسلم شہید نے اپنے منفرد قوت و فکری روشنی میں توسیع پسند چین کو یہ سمجھنے پر مجبور کردیا کہ چند زرخرید مفاد پرست بلوچ نام نہاد وزراء دراصل پاکستانی ایجنٹ ہیں جو پاکستانی اسٹبلشمنٹ کے سائے تلے اسمبلیوں میں بیٹھکر چینی اتھارٹی سے خونی معاہدے کرتے پھرتے ہیں ۔ جو کسی بھی حوالے سے بلوچ قوم و بلوچستان کے نمائندے نہیں ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آج اسلام آباد میں موجود چینی سفیر بَرملا اس بات کا اظہار کررہے ہیں کہ چین کی کثیر سرمایہ کاری کے باوجود پاکستان اس کے بدلے میں مکمل ناکام ثابت ہوا ہے اور ایک بھی منصوبے کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکا ہے ۔ یہ دراصل چین کی گھبراہٹ ہے جو دبے لفظوں میں بیان ہورہا ہے ۔

دراصل جنرل اسلم شہید نے اپنی ذہانت سے سمتوں کی درستگی پر پوری تحریک کو راہ دکھاکر جدید طرزِ عمل کو طرہِ امتیاز بنایا ۔ کچھ عرصے سے تحریک کے بارے میں عجیب چہ مگوئیاں ہورہی تھیں ایک طرح کچھ لوگ مایوسی پھیلارہے تھے اور کچھ دوسرے مایوسی کی طرف جارہے تھے۔ اس صورتحال میں پاکستانی حکمراں بغلیں بجارہے تھے کہ بلوچستان نام نہاد قومی دھارے میں آگیا ہے۔ مگر جنرل اسلم شہید کے فیصلہ کن راست اقدام نے پاکستانی حکمرانوں کی نیندیں اڑادیں ان کے وہم و گماں میں نہیں تھا کہ ایسا کچھ بھی ہوگا۔ توسیع پسند چین بھی سکتے میں آگیا۔ اب پاکستانی حکمرانوں کا یہ عالم ہے کہ اس اضطرابی کیفیت میں سعودی دولت مند شہزادوں کو گھیر کر لارہے ہیں کہ تاکہ کچھ تو دنیا کو دکھائیں مگر سعودی عربیہ زیادہ دیر اس تماشے کا حصہ نہیں بن سکتا کیونکہ میڈل ایسٹ میں حالت ابتر ہیں ۔

بہر حال جنرل اسلم شہید کے جانثار ساتھی وطن کی آزادی کیلئے ہمہ وقت کوشاں ہیں اور گل زمین کی آزادی کیلئے اپنے عظیم جنرل کے نقشِ قدم پر چلنے کیلئے پہلے سے بھی زیادہ تیار و استادہ ہیں ۔ اس بات کا ادراک پاکستانی حکمرانوں کو اچھی طرح سے معلوم ہے اسی لئے اپنی اضطراب کو چھپانے کیلئے مکمل چپ سادے ہے۔ یہ پاکستانی ریاست کی شکست اور جنرل اسلم شہید کی جیت ہے ۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔