سوگ مناؤں یا تہوار ۔ باگی بلوچ

361

سوگ مناؤں یا تہوار

تحریر۔ باگی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کافی وقت لگا یہ سمجھنے میں کہ قومی عظیم شُہدا کی شہادتوں پر سوگ مناؤں یا تہوار؟ اب سمجھ چُکا ہوں قومی سر فروش وطن کی دفاع میں جام شہادت پا چُکے ہیں، سوگ کیوں مناؤں، شہادتیں قومی آزادی کے سوغات کہ مانند ہوتے ہیں، فکری سنگتوں کی جسمانی جدائی کا دُکھ ضرور رہتا ہے، رہبروں کی کمی محسوس ہوتی ہے، غمزدہ ہو جاتے ہیں پر مایوس ہرگز نہیں ہوتے، قومی شہدا کی فکر و فلسفہ، گُفتار ہر حوالے سے ہمارے ساتھ ہوتے ہیں، آخری سانس تک ہم اپنی شہدا کی فکری مشن اور فلسفے پر گامزن رہیں گے۔

اُس وقت کیا کیفیت ارد گرد گردش کررہا ہوتا ہے، لفظوں میں بیان کرنا مشکل لگتا ہے، جب فکری سنگت کی شہادت کی خبر موصول ہو جاتی ہے۔ جدائی غمزدہ کرتی ہے پر انکی عظیم قربانی و شہادت پر فخر محسوس ہو تا ہے۔ کاش! میں سنگت کی جگہ ہوتا مجھے بھی شہادت نصیب ہو جاتا، غمزدہ وقت میں تہوار منانے کا جوش پیدا ہو جاتا ہے، اس لیئے کہتے ہیں، آشوبی فکری سنگت زندہ ہوتے ہیں، شُہداء امر ہوتے ہیں، حقیقت ہے متفق ہونا ہے۔

استاد اسلم جان نے شہید ریحان جان کی شہادت پر ہمیں درس دیا کہ قومی شُہدا زندہ ہیں، تہوار کے مستحق ہیں۔ ان پر فخر کریں ازادی کے سوغات لائیں، تمام شہدا کی قربانیاں آج یقین سے ہمیں حوصلہ بخشتی ہیں، ہمت پیدا کرتے ہیں، ہمارا وجود بن جاتے ہیں، ہم میں موجود رہتے ہیں، فکری حوالے سے ہماری رہنمائی کر رہے ہوتے ہیں۔

بولان کے سنگلاخ پہاڑوں کے چنال کے سائیں میں سنگت کچھ لمہ کے لئے لمبی سفر کے بعد آرام فرما رہے ہوتے ہیں، اُس وقت کے سکون اور آرام کی کیفیت سرد ہواؤں کے ساتھ وہ نرم آوازیں ماں کی گود میں جیسے بچپن کی لوریاں سنا رہے ہوتے ہیں۔

استاد اسلم جان قومی تحریک کے چنال کی مانند ثابت قدم تھے، کل ہماری نئی نسل بھگت سنگھ، ماؤ، نیلسن، یا چی اور بہت سارے عظیم رہبروں کی قربانیوں کا داستان نہیں سُنائے گا بلکہ نواب محراب خان سے لے کر فدائین بابر جان تک کی داستان سنائیں گے، مزید چلتے چلتے ازادی کے سفر میں قومی تاریخ بہت لمبی داستانیں رقم کر چُکی ہوگی، مجھے فخر ہے اپنے قوم اور اپنے شُہدا پر۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں ۔