سامراجی سازشیں
تحریرـ خالد شریف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اگر منطقی حوالے سے تجزیہ اور مشاہدہ کیا جائے تو غلام قوموں کیلئے غلامی ایک ایسا طوق اور ایسی زنجیر ہے، جسے توڑنے کیلئے سب سے پہلے انسان کا احساسِ غلامی کے ساتھ ساتھ شعور، نظریہ، مخلصی و ایماندار ہونا ضروری ہے، کیونکہ بغیر احساس کے انسان جو کچھ بھی کرنے کی کوشش کرے گا، وہ سوائے اپنا کچھ وقت ضائع کرنے کے اور کچھ بھی نہیں ہوگاـ اور حقیقت یہ ہے کہ وہ جذباتی حوالے سے کررہا ہوگا یا پھر وہ شُہرت کیلئے کررہا ہوگا، کیونکہ اگر کسی کو ذرا بھی احساس ہوگا، وہ اپنے ذاتی خواہشات کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان، اپنے مال مویشی، حتٰی کہ اپنے جان کو بھی قربان کرنے کیلئے تیار ہوتا ہےـ
غلامی سے نجات اور چھٹکارے اور ایک مکمل آزادی کیلئے قبضہ گیر و سامراج اور اُس کی پُراکسی کبھی بھی یہ نہیں چاہتے کہ ایک غلام قوم آزاد ہو جائے کیونکہ سامراج کا مفاد اسی امر میں وابستہ ہوتا ہے کہ مقبوضہ سرزمین کبھی آزاد نا ہو، بلوچستان جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال سرزمین ایک آزاد ملک بن جائے اور اُن کے ہاتھ سے بہ آسانی چلا جائے کیونکہ پاکستان جیسا قبضہ گیر جو بلوچستان پر ستر سالوں سے قابض ہے اور بلوچستان کے ہر قیمتی وسائل کو با آسانی نیلام کررہا ہے، اسکے ساتھ چین و سعودی عرب اور بھی بہت سے سامراج ہونگے، جنہیں ابھی تک واضح طور پر سامنے نہیں لایا گیا ہےـ
مجھ جیسے کمزور سوچ کے مالک اور میرے خیال میں ایک غلام قوم کو اپنے غلامی کی زنجیریں توڑنے کیلئے احساسِ غلامی، احساسِ انسانیت اور شعور کے ساتھ ساتھ مخلصی و ایمانداری ضرورت ہے اور اپنے قوم کو آزاد کرنے کیلئے بہت سارے قربانیوں سے گذرنا پڑے گا، جس کیلئے ہمیں ہر مشکل وقت کا سامنا کرنا چاہیئے ـ کیونکہ قبضہ گیر اور سامراج کے پُراکسی و ایجنٹ آزادی کی تحریکوں میں داخل ہوجاتے ہیں بلکہ باقاعدہ وہ آزادی کی تنظیم بناکر بنام آزادی کیلئے جنگ کرتے ہیں، ایک محدود حد تک اور حقیقی و بنیادی تنظیم کے سامنے بہت ساری رکاوٹیں کھڑی کردیتے ہیں کیونکہ وہ سامراج کے کہنے پر چلتے ہیں، جیسے سامراج ان کو کہتا ہے ویسے ان کو کرنا پڑتا ہےـ
اگر ہم انگولا کی آزادی کی جدوجہد کی بات کریں، تو انگولا میں سی آئی اے کی جارحیت و آمریت کا خاتمہ کردیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پرتگال کی نوآبادیاتی جنگوں کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ گنی بساؤ کے یکطرفہ اعلانِ آزادی کو تسلیم کرلیاگیا اور موزمبیق میں اقتدار 25جون 1975ء کو تحریکِ آزادی فریلمیوکے حوالے کردیا گیا لیکن انگولا میں تین مختلف تنطیمیں انگولا کے عوام کی نمائندگی کی دعویدار تھیں. یہ تنطیمیں مخلوط حکومت بنانے میں ناکام ہوگئیں، انگولا میں خانہ جنگی چھڑگئی اور بڑے پیمانے پر بیرونی مداخلت شروع ہوگئی. جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت، زاہر کی سامراج نواز موبوتو حکومت، پرتگالی فوج کے سفید نسل پرست فوجیوں اور یورپ و امریکہ سے بھرتی کیئےہوئے کرائے کے فوجیوں نے رجعت پسند ایف. این. ایل. اے اور یونیتا تنظیمیوں کی طرف سے باقاعدہ فوجی کارروائی کی، جبکہ کیوبا کے رضاکاروں نے انقلابی تنظیم ایم.پی.ایل.اے کی براہ راست مدد کی۔ روس نے ایم.پی.ایل.اے کی سیاسی پشت پناہی کرنے کے علاوہ فوجی سامان بھی مہیا کیا، جبکہ امریکہ نے رجعت پسند تنظیمیوں کی نہ صرف سیاسی و فوجی اعانت کی بلکہ اس کی سازشی تنظیم سی.آئی.اے کی نگرانی میں رجعت پسند تنظیمیوں نے اپنی فوجی کارروائیاں کیں. انگولا کی خانہ جنگی جو کہ یوم آزادی 11نومبر 1975ء کے بعد شدت اختیار کرگئی تھی، فروری 1976ء میں جاکر اختتام پزیر ہوئی اور انقلابی تنظیم ایم.پی.ایل.اے کو دشمنوں پر مکمل فتح حاصل ہوئی ـ
انگولا کے داخلی معاملات میں سی.آئی.اے کی مداخلت کے متعلق حقائق خانہ جنگی کے دوران ہی منظر عام پر آچکے تھے. متعدد امریکی سینیٹروں، ایوان نمائندگان کے ممبروں اور اخبارات نے سی.آئی.اے کی مداخلت کا پردہ چاک کردیا تھاـ اب انگولا میں سامراجی سازش کی ناکامی تک کے عرصے میں ہونے والے واقعات اور سی.آئی.اے کی سرگرمیوں کی تفصیلی کارروائی پیش کی ہے انگولا ٹاسک فورس کے قیام امریکی اخبارات نے اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ ایف.این.ایل.اے کے سربراہ ہولڑن رابرٹو 1962ء سے لے کر سی.آئی.اے کے باقاعدہ تنخواہ دار تھے اور یہ کہ 1969ء میں جب صدر نکسن نے پرتگالی حکمرانوں کی خوشنودی کی خاطر ان کی تنظیم کی براہ راست امداڈ بند کردی تھی، تو انہیں دس ہزار ڈالر سالانہ کی تنخواہ پر سی.آئی.اے کا ملازم رہنے دیا گیا. البتہ سی.آئی.اے.نے نگراں کمیٹی کی منظوری کے بغیر ہی جولائی1974ءمیں رابرٹو کی مالی امداد شروع کردی تھی اور حکومتی اداروں میں ایف. این.ایل.اے کے حق میں مہم جاری کردی تھی ـ
انگولا میں سی.آئی.اے کی سر گرمیوں سراغ رسانی اور خفیہ کارروائیوں کے اعلیٰ ادارے بم کمیٹی، نے جو سی.آئی.اے کی نگرانی کرتی ہے، وزیرخارجہ ہنری کسنجر، کی صدارت میں جنوری 1975ء میں رابرٹو کو تین. لاکھ ڈالرکی رقم دینے کا فیصلہ کیا. فروری میں رابرٹو کی تنظیم نے دارالحکومت لواندا میں ایم.پی.ایل.اے کے سپاہیوں اور حامیوں پر حملہ کرکے انگولا میں پُرامن تصفیے کے امکانات ختم کردیئے. مارچ میں سی.آئی.اے نے لواندا میں اپنا اسٹیشن دوبارہ قائم کیا جو کئی سالوں سے بند پڑا ہوا تھا. جولائی میں انگولا میں باقاعدہ مداخلت کرنے کی غرض سے سی.آئی.اے نے ایک ٹاسک فورس قائم کیا جس کاسربراہ مصنف اسٹاک ویل کو مقررکیا گیا. ابتدائی طور پر اس ٹاسک فورس کے کئے بم کمیٹی نے ایک کروڑ چالیس لاکھ ڈالر کی رقم منظور کی اور اس آپریشن کا مقصد ایم.پی.ایل.اے کوسستی فتح سے محروم کرنا بتایا گیا یعنی ایم.پی.ایل.اے کو شکست دینا تو مشکل ہے لیکن اسے اتنا تنگ کیا جائے اور اتنا نقصان پہنچایا جائے کہ انگولا کے عوام اپنی آزادی کی خوشیاں منانے کے بجائے قتلِ عام اور تباہ کاری کا ماتم کرتے رہ جائیں ـ
رابرٹو اور ساومبی کو ملنے والی سی ـ آئی ـ اے کی امداد نہ صرف اسلحہ، ٹرانسپورٹیشن، سازو سامان اور نقدی پر مشتمل تھی بلکہ ان کی فوجی کاروائیوں کی منصوبہ بندی اور میدان جنگ میں آپریشن بھی سی ـ آئی ـ اے کی نگرانی میں ہوئے ـ کتاب کے ضمیمے میں ان دو تنظمیوں کو ملنے والے اسلحے و سامان کی اقسام و تعداد کی مکمل فہرستیں بھی شائع کی گئی ہیں ـ اس اسلحے اور میدان میں سی ـ آئی ـ اے کی کاروائیوں پر کل 3 کروڑ 17 لاکھ ڈالر کی رقم خرچ ہوئی، سی ـ آئی ـ اے کے آپریڑز کی تنخواہیں اور ہیڈ کواٹر پر انگولا کے سلسلے میں خرچ ہونے والی رقم اس بجٹ میں شامل نہیں ہےـ بجٹ کے آخری 48 لاکھ ڈالر جنگ ختم ہونے کے بعد ادا کیئے گئےـ اس میں واجب الادابلوں کے علاوہ رابرٹو کےلیئے 8 لاکھ 38 ہزار ڈالر کا معاوضہ اور ساومبی کے لئے 5 لاکھ 40 ہزار 7 سو ڈالر کی رقم بھی شامل ہے، جو انہیں اپنی تخریبی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیئے دی گئیں ـ
انگولا کی آزادی کے جدوجہد میں کئی رکاوٹیں آئیں، سامراج نے کئی حربے استعمال کئے لیکن انگولا کے حقیقی جہد کاروں نے اپنی مخلصی ، ایمانداری ، قابلیت اور کئی قربانیاں دیکر اپنے سرزمین کو سامراجی طاقتوں سے آزادی دلائی، خیر انگولا نے اپنی آزادی آخر کار ایم پی ایل اے کے قیادت میں حاصل کر لیئےـ
اسی طرح آج بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد میں کئی رکاوٹیں ہیں، آگے بھی بہت سارے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، کیا ہم آنے والے رکاوٹوں، مشکلات کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں؟ کیا ہم میں اتنی ذہنی ہم آہنگی ہے؟ کہ ہماری تنظیمیں یکجہتی کیلئے تیار ہونگے؟ یا پھر ہمارے درمیان کسی بھی طرح کے اختلافات نہیں ہیں؟ ایسا نہ ہو خدا نخواستہ ہماری مسلح تنظیمیں کسی کے پُراکسی ہوں؟ ہمیں بہت ہی سنجیدہ ہونا چاہیئے کہ ہم اپنے حقیقی اور بنیادی مقصد سے پھسل نہ جائے اور ہمارے کچھ مدبر خود کو بلوچ قوم پرست کہنے والے جو قبضہ گیر ریاست پاکستان کے پارلیمنٹ میں بیٹھے بلوچ قومی جدوجہد کو کمزور اور ختم کرنا چاہتے ہیں۔
آج بلوچ قومی حقیقی جہد کاروں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دشمن کے تمام حربوں کو سمجھ کر اپنی کمزوریوں کو پہچان لیں اور اپنے اندر چھپے دوست نما دشمن کی نشان دہی کرکے دشمن کے تمام حربوں کو ناکام کریں ـ
بلوچ قوم کی آزادی کی جو جنگ جاری ہے، بلوچ جہدِ آزادی میں ہمیں بہت سارے مشکلات کا سامنا ہوگا۔ جیسے کے انگولا کی تحریک آزادی کو ہوا تھا یا بنگلادیش، ہندوستان، یا لیبیا کو ہوا تھاـ ہمیں اپنے جدوجد کو بہت ہی سنجیدگی سے آگے لے جانا ہےـ کیونکہ ہمارے جہدِ آزادی میں نوجوانوں، بزرگوں، مدبر رہنماؤں کا لہو شامل ہے، یہ اُن شہدا کا فکر و نظریہ، سوچ و بنیادی مقصد ہے ـ ہمیں اپنے شہدا کے بنیادی مقصد کو بہت ہی سنجیدگی، مخلصی، ایمانداری سے پایہ تکمیل تک پہنچانا ہےـ
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں ۔