زندہ رہنے کیلئے مرنا
تحریر۔ فقیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
لوگ موت کے ڈر سے اپنی زندگی کو بچاتے ہیں، مگر کچھ لوگ موت کو گلے لگا کر زندگی چاہتے ہیں کیونکہ یہ زندگی ہمارا مستقبل نہیں ہے، ہم اس دنیا میں عارضی طورپر آئے ہیں، اسلیئے ہمارا اصل جگہ یہاں پر نہیں ہے۔ چینی قونصل خانے پر حملہ کرنے میں بی ایل اے کے تین فدائین جانثار، رئیس عرف سنگت وسیم جان، اضل خان عرف سنگت ڈاڈا، شہید رازق عرف سنگت بلال جان نے بھی موت کو گلے لگا کر زندہ ہو گئے۔
سنگت وسیم جان لاغر بدن،اوسط قد کا سنگت تھا۔ وسیم جان گذشتہ طویل عرصے سے بلوچ قُومی تحریک سے مُنسلک تھا، وسیم جان تعلیم یافتہ نوجوان تھا، وسیم جان بی ایس او آزاد کا پیداور تھا، آج وسیم جان زندہ ہے، آج وسیم جان گچک کے انہی میدانی علاقوں میں قبضہ گیر ریاست کے انتظار میں بیٹھا ہے کیونکہ آج وسیم جان زندہ ہے، ہمارے دلوں میں وسیم جان کی وہ سُوچ زندہ ہے، جس سے کچھ غیرانقلابی سنگت وسیم جان سے ناراض تھےکہ سنگت وسیم ہر وقت تنظیمی معاملات میں سینئر ساتھیوں سے سوال کرتا تھا، جو وسیم جان کو مطمیئن نہیں کرسکتے تھے، آج وہ لوگ وسیم کے سامنے شرمندہ ہیں۔
وسیم جان کو بالکل موت سے ڈر نہیں تھا، آج وسیم جان ایک مثال قائم کرگیا، ہر ایک رئیس جان کی مثال دیتا ہے کیونکہ وسیم جان بہادری کی ایک مثال ہے۔ وسیم جان کے خواہش تھی کہ تنظیمیں آپس میں متحد ہوجائیں، انتشار کے ماحول میں بلوچ قومی تحریک ختم ہوجائے گا، اگر ایسا ہوا تو ہماری آنے والی نسل ہم پر لعنت بھیجے گی۔
شہید رئیس جان شہید جنرل اُستاد اسلم سے بہت متاثر تھے اور ہروقت کہتا تھا کہ اگر بلوچ قومی تحریک میں کوئی ایماندر ساتھی موجود ہے تو ایک واجہ شکاری اور دوسرا اُستاد اسلم ہے، آخر شہید وسیم جان نے شہید جنرل کی قیادت میں بلوچ قُوم کیلئے اور آنے والی نسلوں کیلئے اپنا سر قُربان کردیا، فدائی بن گیا، غلامی کی زنجیریں کو توڑنے کیلئے ہر بلوچ کافرض ہوتا ہے کہ وہ اس جنگ کا حصہ بنے، قابض ریاست آج بھی وسیم جان، ڈاڈا جان، بلال جان سے ڈرتا ہے، ریاست ذہنی مریض بن چُکا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔