رویئے بدلنے ہونگے
تحریر۔ لیاقت بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ہم انسان کو سمجھنے کیلئے اپنا وقت برباد کرتے ہیں لیکن کبھی اپنا وقت خود پر استعمال نہیں کرتے ہیں، میں نے ایسی جگہیں دیکھیں ہیں، جہاں لوگوں کو حوصلہ دینے کے بجائے لوگوں کو ناکامی اور مایوسی سے بھری ٹوکری دی جاتی ہے، کیونکہ جہاں لوگوں کا اصل مقصد دوسرے لوگوں کی کامیابی نہ ہو، تو ہمیشہ انکی حوصلہ افزائی کے بجائے، انکی حوصلہ شکنی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر ایک سماج میں ایک شخص، دوسرے سے متاثر ہوتا ہے تو انکی کامیابی اور مثبت رویئے کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔ انسان کی زندگی کی بنیادی چیز رویہ ہے، رویہ وہی چیز ہے جو انسان کو ایک مقام تک لے جاتا ہے۔
اگر ہم گروہوں یا افراد کے رویوں پر نظر ڈالیں، تو زیادہ تر اپنے مفاد کیلئے مثبت ہوتے ہیں لیکن کچھ جگہ جاہلیت، بےعلمی اور بددماغی کی وجہ سے انسان دوسروں کے منفی رویوں کی وجہ سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں پر ایک نظر ڈالیں تو وہاں بڑے عہدے داروں کی رویئے کی وجہ سے چھوٹے کارکن بہت متاثر ہوتے ہیں، بڑے عہدے داروں کی مضبوتی اور اچھائی کی وجہ سے دوسرے کارکنوں کا ہمت و حوصلہ بہت مظبوط ہوجاتا ہے کیونکہ تنظیم یا پارٹی میں کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جنکا مقصد ایک ہوتا ہے، منزل و راستہ سب کچھ ایک لیکن کچھ ایسے ہوتے ہیں جہاں لیڈر انا پرست و ضدی ہوجائے تو انکے کارکنان بالکل اسی طرح تربیت پاتے ہیں۔ آنے والے وقت میں وہ بھی اپنے انا کا طاقت پھر اپنی کارکنوں پر استعمال کرتے ہیں اور اس پر باضمیر اور حقیقت پرست تنقید کرتے ہیں اور بعد میں انہیں بے دخل کردیا جاتا ہے اور اسی طرح وہ لوگ کبھی بھی اپنی منزل پر پہنچ نہیں سکتے، راستے میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر ختم ہوجاتے ہیں۔
میں نے ایسی جگہیں دیکھیں ہیں، جہاں لوگ ایک دوسرے سے ایسے بات کرتے ہیں کہ ان میں فرق نہیں کرسکتے کہ کس انداز سے بات ہورہا اور اپنے کارکنوں کو خود سے الگ رکھتے ہیں اور وہاں انسان کیا پھتر بھی ہو، انکے منفی رویوں سے ٹوٹ جاتے ہیں۔ میں نے اپنے قریبی دوستوں اور اردگرد کے ماحول کو دیکھا ہے، جہاں انسان کی یکجہتی کو ایک ایسے مقام تک لے جاتے ہیں جہاں نفرت سے دشمنی پیدا ہوجاتی ہے۔
میں نے ایسے جگہیں دیکھے ہیں، جہاں لوگوں کی باتوں نے نہیں بلکہ انکے رویوں نے مجھے مارا ہے، جب میں سوچتا ہوں آیا انکا رویہ سچ میں ایسا ہے؟ انکے رویئے کیوں ایسے ہیں؟ کس طرح انکا رویہ اچھا ہوسکتا ہے؟ پھر تھوڑی دیرکیلئے سوچ میں پڑتا ہوں اور میرا ذہن کبھی قبول نہیں کرتا کہ یہ لوگ سدھر سکتے ہیں، پھر یہی بات ذہن میں آتا ہے کہ انسانی نظریہ اور سوچ اور فیصلوں پر کوئی بھروسہ نہیں، دماغ ہر سیکنڈ فیصلہ دیتا ہے میرے خیال میں یہ لوگ بالکل غلط ہیں، اس طرح ہوجائے تو بربادی کے سوا اور کچھ نہیں پیدا ہوتا، ہوسکے آئندہ یہ لوگ اپنی گذری ہوئی غلطیوں سے سیکھیں اور اچھا کرنے کی کوشش کریں, کیونکہ اگر آج میں جس اسٹیج پر کھڑا ہوں تو میں اپنے رویوں کی وجہ سے ہوں۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرا رویہ اچھا ہے، یا خود کو صحیح ثابت کررہا ہوں، میری بھی غلطیاں ہیں۔ کچھ لوگوں کے رویوں سے دوسرے انسان مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان سے کنارہ کشی کا سوچتے ہیں۔ ایک جہدکار ہونے کے ناطے ہم سب اپنے دوستوں و ساتھیوں سے خوش مزاج ہوکر ملیں اور ان کے سامنے ایسا رویہ اختیار کریں کہ ہم سے متاثر ہوجائیں، اور پھر ان سے کوئی اور تو یہ ہماری کامیابی کی نشانی ہوگی اور ہمارا منزل دن بدن قریب ہوجائے گا۔
میں کچھ لوگوں کے پاس سیکھنے کیلئے جاتا ہوں تو وہ ایسی باتیں کرتے ہیں کہ وہاں انکی باتوں کو برداشت نہیں کرسکتا اور انکی مجلس سے اٹھنا خود کیلئے بہتر سمجھتا ہوں اور بعد میں سوچتا ہوں کہ میں اپنے دوستوں کو مطمئین نہیں کرسکتا تو اپنے قوم کو کیسے یا اپنے قوم کے عام نوجوانوں کو کیسے مطمیئن کروں گا، پھر خود کو حوصلہ دیکر کہتا ہوں کہ سب اپنے وقت کے ساتھ ساتھ ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ ہر انسان دوسرے انسان سے اسکے رویئے، اسکے اٹھنے بیٹھنے اور بات کرنے کے لہجوں سے متاثر ہوتا ہے تو اس کو اپنے راستے، منزل کی طرف کوئی مشکلات نہیں ہوتیں۔
جہاں تک میرا خیال ہے، جو انسان منزل یا اپنے مقصد کے لیئے جدوجہد کرنا چاہتا ہے، کوئی غلام قوم اپنی غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے، تو سب سے پہلے اسکو یہ جان لینا چاہیئے کہ اب وہ ایک قوم کی نمائندگی کررہا ہے کیونکہ اب وہ اپنے ذات سے نکل کر ایک قوم کی آزادی اور حقوق کی باتیں کرتا ہے، ہر وہ عمل نوٹ ہوتی جارہی ہوتی ہے جو وہ کررہا ہے۔ اٹھنا، بیٹھنا، بات کرنا سب کچھ عام اور خاص لوگ دیکھتے رہتے ہیں۔ وہ ایک قوم کی نمائندگی ایک بڑے اسٹیج پر کررہا ہوتا ہے، اگر اسکے رویئے اور کرتوتیں ایسی ہیں، تو قوم کیسی ہوگی؟ لوگ ایسی چیزیں بہت دیکھتی ہیں اور بہت اثر انداز ہوتے ہیں اور متاثر بھی۔ مثبت اعمال کی وجہ سے لوگ انکے نظریئے کا حصہ بن جاتے ہیں۔
ہمیں اسکا بہت خیال رکھنا چاہیئے کہ ہمارے انجان غلطی سے کسی اور ساتھی کی دل نا ٹوٹ جائے یا اسکو دکھ نا ہو اور وہ ساتھی قومی سوچ اور فکری جدوجہد سے خدانخواستہ دستبردار نا ہوجائے۔ دنیا اور قوم کے سامنے یہ ایک قومی جرم ہوگا، یہ کبھی معاف نہیں ہوگا، میں اپنے قوم کے جہدکاروں سے اپیل کرتا ہوں کہ اپنے رویئے ہمیشہ مثبت رکھیں، چاہے وہ کوئی لیڈر ہو یا ایک کارکن۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں ۔