دھمکی یا سفارت کاری – لطیف بلوچ

305

دھمکی یا سفارت کاری

لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ قوم گذشتہ سات دہائیوں سے قبضہ گیریت کے خلاف لڑ رہے ہیں، یہ جنگ بلوچ اپنے قوت بازو اور دستیاب وسائل اور قومی حمایت کے تحت لڑ رہے ہیں۔ ان سات دہائیوں میں بلوچ قومی تحریک کو کوئی واضح عالمی سپورٹ اور حمایت حاصل نہیں رہی ہے بلکہ کچھ ممالک اندرون خانہ دبے الفاظ میں حمایت کرتے رہے ہیں لیکن وہ اپنے قومی مفاد کو نقصان سے بچانے کے لئے کبھی کھل کر پاکستان کے مظالم، بلوچ نسل کشی، وسائل کی لوٹ مار اور قبضہ گیری کے خلاف آواز نہیں اُٹھانے سے قاصر رہے ہیں، بلکہ مصلحت پسندی کا مظاہرہ کرکے کبھی کبھی مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں، عالمی طاقتوں کی پاکستان کے مظالم کو خاموش حمایت دینے سے مظالم میں شدت آتی رہی ہے کیونکہ کوئی ایسی عالمی طاقت نہیں جو پاکستان کے ہاتھ بلوچ نسل کشی سے روک سکے۔

 بھارت دبے دبے الفاظ میں بلوچ قوم کے خلاف مظالم کی مخالفت کرتی ہے لیکن وہ بھی کھل کر سامنے آنے سے کتراتی ہے، جس طرح پاکستان کھل کر ہر فورم پر کشمیر کی مسئلے کو اجاگر کرتی ہے، اور کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور قتل عام کا کھل کر بھارت کو ذمہ دار ٹہراتا ہے بلکہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے، اقوام متحدہ سمیت دیگر فورمز پر کھل کر اور واشگاف الفاظ میں کشمیر پر اپنے موقف کا اظہار کرتی ہے، اس سلسلے میں باقاعدہ پاکستانی سفارتی حکام عالمی سطح پر بھر پور سفارتکاری کرتے ہے۔

پاکستان کی بھر پور سفارتکاری، تائید و حمایت سے کشمیر کا مسئلہ ایک عالمی مسلہ بن چکا ہے لیکن اس کے برعکس بھارت کا موقف حکومتی سطح پر واضح نہیں،  نہ ہی وہ بلوچستان کے مسئلے کو اپنے خارجہ پالیسی میں شامل کرنے کے لئے تیار ہے، زبانی جمع خرچ کرکے بلوچ قوم کے مشکلات میں مزید اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔

بھارت کی 70 ویں یوم آزادی کی موقع پر وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے خطاب میں بلوچستان کا زکر کیا تھا لیکن اس کے کوئی عملی اقدامات دیکھنے کو نہیں ملے بلکہ پاکستان گذشتہ 70 برسوں سے بلوچ قومی تحریک پر بھارتی مدد کے جو الزامات لگا رہے تھے اُن الزامات کو تقویت ملی اس آڑ میں پاکستانی فوج کو نسل کشی کو مزید تیز کرنے کا موقع ہاتھ آیا 15 اگست 2016 کو لال قلعہ خطاب کے بعد بھارت نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

ایسے شنید میں آیا ہے کہ بلوچ لیڈروں نے نہرو سے حمایت طلب کیا تھا لیکن نہرو نے بلوچستان کی آزادی کی تحریک کے حمایت سے انکار کیا تھا کوئی بھی ملک کسی دوسری قوم کے مفادات کے لئے اپنی مفادات کو داؤ پر نہیں لگاتا وہ اپنی مفادات کو انسانیت اور انصاف سے بھی مقدم سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکا، یو کے، جرمنی، خلیج ممالک بھی بلوچ قومی تحریک اور بلوچستان کے بارے میں واضح موقف نہیں رکھتے بلکہ وہ پاکستان کو بلیک میل کرنے اور ڈو مور کے لئے بلوچستان کارڈ کا استعمال کرتے رہتے ہیں، جہاں ان ممالک کی اپنی خارجہ پالیسی اور مفادات ہیں، اس کے علاوہ عالمی سطح پر بلوچ لیڈروں اور تنظیموں کی جانب سے سفارت کاری کا عمل سُست روی اور سرد مہری کا شکار ہے۔ اب تک ہم سفارت کاری میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکے ہیں بلکہ اس کے برعکس ہم دھمکی آمیز لہجے سے دیگر ممالک کو مخاطب کرکے اپنے لئے مزید محاذ کھول رہے ہیں، جن کا بلوچ قومی تحریک اس صورتحال میں کسی صورت نہ متحمل ہوسکتی ہے نہ بوجھ برداشت کرسکتی ہے۔

ہم اس طرح کی بیانات دے کر اپنے مشکلات میں اضافہ اور پاکستان کے لئے آسانی پیدا کررہے ہیں۔ پاکستان چین کو بلوچستان میں لاکر گوادر اُنکے حوالہ کرکے اپنی معاشی مفادات حاصل کررہی ہے، سی پیک کے ذریعے میگا پراجیکٹس حاصل کررہی ہے، بلوچ ان یکطرفہ منصوبوں کو اپنی تباہی تصور کرتے ہیں اور ان منصوبوں کی بھر پور مخالف ہے لیکن مخالفت، مذمت اور مزاحمت کے علاوہ کیا بلوچ تنظیموں نے کبھی یہ ضرورت محسوس کی ہے کہ وہ چین کو سفارتی حوالے سے رابطہ کرکے قائل کرسکیں؟ اُن کے سامنے حقائق اور پاکستانی توسیع پسندانہ عزائم سے رکھیں یا دیگر ممالک کی ذریعے چین پر دباو بڑھا سکیں کہ وہ اپنے ان منصوبوں پر نظرثانی کرکے پاکستان کو معاشی فوائد دینے سے ہاتھ کھینچ لے اور بلوچ سرزمین پر سرمایہ دارے سے گریز کریں، ناقص پالیسیوں اور سُست سفارت کاری کی وجہ سے چین اب بلوچ تحریک کیخلاف عالمی سطع پر لابنگ کررہی ہے، عالمی سطح پر بلوچوں کے لئے مشکلات پیدا کررہی ہے۔

اب سعودی عرب گوادر میں سرمایہ کاری کی خواہش مند ہے لیکن یہاں بھی ہم اپنی روایتی دھمکیوں اور بیانات کا سہارا لے رہے ہیں،  خدشہ ہے کہ یہ روایتی اور غیر سفارتی رویہ مستقبل قریب میں بلوچ تحریک کے مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بنے گی، ہم خود مشکلات و مصائب کا شکار اور جنگی صورتحال سے دوچار ہیں، ایسے میں دوسرے ممالک کی تنازعات میں فریق بننے سے بلوچ تحریک پر منفی اثرات مرتب ہونگے ایک دوسرے سے دشمنی نبھانے کی چکر میں بلوچ قوم اور بلوچ تحریک جن مشکلات کا سامنا کررہا ہے ہم جان بوجھ کر اُن سے نظریں چرانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ اگر تنظیموں اور پارٹیوں کی پالیسیاں دیگر قوتوں کی خواہشات پر مرتب ہوئے تو اس سے بلوچ تحریک کی حمایت دنیا میں دن بدن محدود اور آہستہ آہستہ ختم ہوتی جائیگی بلوچ لیڈروں اور ذمہ داروں کو اپنے قومی مفاد، فوائد و نقصانات کو سامنے رکھتے ہوئے پالیسیاں ترتیب دینا چاہیئے اور بلوچ قومی مفادات کو اور فوائد کو مدنظر رکھ کر دیگر ممالک سے تعلقات استوار کرنا چاہیئے۔ پاکستان اپنے حلیف ممالک سے ملکر عالمی سطح پر اب سفارتی چینلز استعمال کرکے بلوچ تحریک کے خلاف دائرہ تنگ کررہی ہے، سوئٹزرلینڈ کی جانب سے بلوچ رہنماوں اور کارکنوں کی سرگرمیوں کو محدود کرنا، بلوچ رہنماؤں کے داخلے پر پابندی، مہران بلوچ کو ڈی پورٹ کرنا بھی اس سلسلے کی کڑی ہے، اب پاکستان خلیجی ممالک میں بھی بلوچوں کے مشکلات میں اضافہ کرنے کی بھر پور کوشش کررہی ہے، بلکہ کسی حد تک اپنے اس منصوبے میں کامیابی حاصل کرچکی ہے۔

بلوچ لیڈرشپ کو چاہیے کہ وہ گھمبیر  صورتحال اور حالات کا جائزہ لے کر اپنے پالیسیوں پر نظرثانی کریں، اختلافات اور دوریوں کا خاتمہ کرکے ملکر بیٹھ کر اپنا اثر رسوخ اور تجربے کو استعمال کرکےموثر سفارت کاری کے لئے ایک حل نکالیں ازسر نو پالیسی ترتیب دیں دھمکی سے سفارت کاری کو ترجیح دیکر عالمی سطح  پر سفارت کاری کو مضبوط بنانے کے لئے ایک واضح پالیسی ترتیب دیں اور تحریک کے لئے حمایت اور ہمدردی حاصل کریں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔