وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے ایل بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتی اقدامات سے واضح ہوگیا ہے کہ صوبائی حکومت بلوچ مسنگ پرسنز کے مسئلے کو حل کرنے کے معاملے میں مکمل غیر سنجیدہ و بے اختیار ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک طرف مسنگ پرسنز کے مسئلے کی حل کی بات کی جارہی ہے، دوسری طرف کل سے لیکر ابھی تک 26 مرتبہ مجھے خفیہ ایجنسیوں و صوبائی حکومت کی جانب سے دھمکی آمیز فون کالز موصول ہوئے ہیں۔ کل ضیاء لانگو کے بندے بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں بھی آئے تھے اور بچوں و خواتین کے سامنے مجھے ہراساں کیا گیا۔ میں اپنے اس بیان کے ذریعے میڈیا اور انسانی حقوق کے تنظیموں و اقوام متحدہ کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے، نصراللہ بلوچ، بی بی گل بلوچ ، طیبہ بلوچ ، حوران بلوچ یا وی بی ایم پی و بی ایچ آر او کے کسی بھی عہدے دار و بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ کو کوئی بھی نقصان پہنچا تو اس کی تمام تر ذمہ دار، پاکستان فوج، خفیہ ایجنسیوں و وفاقی و صوبائی حکومت ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ سبین محمود و صبا دشتیاری کی طرح ہمارا بھی ایسیسینیشن(assassination ) کا پلان فوج و خفیہ ایجنسیوں نے بنا رکھا ہے ۔
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ جام کمال صاحب کی پرسوں کی پریس کانفرینس و معاہدے کی سیاہی ابھی تک خشک نہیں ہوئی تھی کہ گذشتہ شب گوادر کے علاقے مونڈی سے راشد ولد عبدالرسول کو پاکستانی فوج وخفیہ ایجنسیوں نے اغواء کیا ۔ جو کہ خلیجی ممالک میں محنت مزدوری کرتے تھے اور چند دن پہلے گھر آئے تھے۔ جبکہ پرسوں تمپ کے علاقے دازن سے آٹھ بلوچوں کو دوران فٹبال میچ فٹبال گراونڈ سے آرمی نے اغواء کیا تھا۔ کوہلو،کاہان ، ڈیرہ بگٹی، مزن بند ،زعمران ، وبلوچستان کے دیگر حصوں میں ایک بے رحمانہ فوجی آپریشن جاری ہے، جس میں ہیلی کاپٹروں و بھاری توپ خانے کے ذریعے پہاڑی آبادیوں پر بلا دریغ بمباری کیا جارہا ہے۔ لوگوں کے مال مویشویوں و گھروں میں قیمتی سامان و گاڑیوں کو لوٹا جارہا ہے ۔المیہ یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں انٹرنیٹ کی سہولت کجا فون کی سہولیت بھی آرمی نے ان علاقوں میں بند کی ہے، جس کی وجہ سے مکمل و تصدیق شدہ اطلاعات و معلومات کے حصول میں ہمیں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
ماما قدیر نے مزید کہا کہ واضح کرتا چلوں کہ بلوچ مسنگ پرسنز کی تعداد110 نہیں بلکہ یہ 110 کی لسٹ ان فیملیز کی لسٹ تھی کہ جو ہمارے احتجاجی کیمپ میں موجود تھے، جو ہم نے صوبائی وزیر داخلہ ضیاء لانگو کو فراہم کی تھی۔ لاپتہ افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے جس کی ماہانہ، سہہ ماہی و سالانہ رپورٹ بی ایچ آر او و دیگر انسانی حقوق و سیاسی تنظیمیں شائع کر رہی ہیں۔
کل شب روزنامہ جنگ میں یہ خبر پڑھ کر حیرانگی کی انتہاء نہ رہی کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیئے قائم کمیشن 21 جنوری سے 86 لاپتہ افراد کے کیسز کی سماعت بلوچستان ہائی کورٹ کے ریٹائرڑ جج جسٹس فضل الرحمان کی سربراہی میں کریں گے۔ یہ خبر از خود مسنگ پرسنز کی فیملیزکی تضحیک کے مترادف ہے کہ 110 فیملیز تو ہمارے احتجاجی کیمپ میں موجود ہیں اور حکومت بات کررہی ہے محض 86 افرادکی، ہزاروں کی تعداد میں شہداء و بلوچ مسنگ پرسنز کا لسٹ ہم نے 2017 میں اقوام متحدہ کے پاکستان کی یونیورسل پریڑیکٹیوہ ریو کے اجلاس کے سلسلے میں اقوام متحدہ میں پیش کی تھیں۔ اس تمام سلسلے میں یہ بات عیاں ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے سربراہ کے دورے کے موقع پر بلوچ مسنگ پرسنز کے مسئلے و بلوچستان میں جاری فوجی آپریشن ، آبادیوں کے لوٹنے کے بعدجلانے و مسمار کرنے ، آبادیوں کے آبادیوں کی جبری ہجرت، اور بلوچوں کی فوج کے ہاتھوں جبری اغواء کے معاملے کو دبانا یا متنازعہ بنانا چاہتی ہے ۔
ہم مہذب دنیا، انسانی حقوق کے اداروں و صحافی حضرات کو مطلع کرنا چاہتے ہیں پرسوں تمپ سے ۸ نوجوانوں اور کل گوادر سے ایک نوجوان کے اغواء سے حکومت نے اپنے معاہدے کی ازخود خلاف ورزی کی ہے اور اب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ فوج و حکومت بلوچ مسنگ پرسنز کے حل کے سلسلے میں زرہ برابر بھی سنجیدہ نہیں ہیں ۔