دودھ اور شہد کی نہریں یا خونی سیلاب
بالاچ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
سرزمین بلوچستان بذات خود ایک آزاد ملک تھا، جسے بعد میں ۲۷ مارچ ۱۹۴۸ کو اسلام کے نام پہ جبری طور پر پاکستان کیساتھ الحاق کروایاگیا، ۱۹۶۷ میں تقسیم ہند کے بعد خطے میں پاکستان کے نام سے ایک غیر فطری ریاست بطور عذاب دنیا کے نقشے پر وجود میں آیا، البتہ یہ بات پوری دنیا بخوبی جانتی ہے کہ بلوچستان اپنے اندر موجود قدرتی وسائل اور بیش بہا معدنیات سے مالا مال ایک خوبصورت سر زمین کی حیثیت رکھتا ہے جو کہ اپنے الگ بولی جانے والی زبانوں، لباس، ثقافت اور تہذیب سے جانی جاتی ہے۔
کم و بیش ۳۰۰ سے زائد مختلف قدرتی معدنیات اور ۱۶۰۰ کیلو میڑ لمبی ساحلی بیلٹ رکھنے والا امیر ملک بلوچستان اور ُاس میں بسنے والے بلوچ ہر طرح کی زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہوکر مفلسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے اور سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ واقعی پاکستان کو دلچسپی صرف اور صرف بلوچ سرزمن میں پائی جانے والی بیشمار قدرتی دولت سے ہے نہ کہ وہاں آباد بلوچوں سے جس کا واضح ثبوت پاکستان کی جانب سے جاری بربریت اور وحشیانہ رویہ ہے، اور دنیا میں شاید کوئی بھی باشعور قوم و فرد اپنے قوم اور سرزمین کے ساتھ اسطرح کی جانی والی زبردستی اور ظلم و زیادتی کی اجازت دینے کے لیے تیار ہو گا.
جیسا کہ آج بلوچ فرزند ایک مزاحمت کی شکل میں کر رہے ہیں، اور پاکستانی ریاست کو اس کے ناپاک عزائم سے روکنے کے لیے بھر پور انداز میں کوشش اور عملی جہدکرتے ہوئے سرگرم عمل ہیں اور جو کہ واقعی بلوچوں کا بنیادی حق ہے، جسے بڑی آسانی کیساتھ پاکستان لفظ غداری اور دہشت گردی کا نام دے کر عالمی دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے ُان کی ہمدردیاں لینے کی مکار پالیسیوں پر عمل پیرہ ہے، اور دوسری جانب پاکستان مسلسل بلوچ قوم کی نسل ُکشی میں مصروف ہے۔
جبری گمشدگیاں، قید و بند اور بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا سلسلہ بہ دستور جاری ہے اور اب پاکستان بیغیرتی کی تمام تر حدیں پار کرتے ہوئے معصوم بیگناہ عورتوں اور بچوں تک کواغواء کر کے زندانوں میں پھینک رہاہے، تو اسطرح کے غیر انسانی حالات پیدا کرنے کے باوجود وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ ُاسے ایک سر کش بیھڑیے(رستر) کی مانند چھوڑ دیا جائے گا، کہ وہ جب اور جہاں ُاس کا دل چاہے لوگوں کو نقصان پہنچائے گا، تو یہ سراسر اس کی بیوقوفی اور بھول ہے۔
جس قوم کے پاس عبدالنبی بنگلزئی، استاد واحد قمبر اور ڈاکٹر اللہ نذر جیسی عظیم ہستیاں موجود ہوں اور شھہید بابا نوروز خان ،شھہیداکبر خان بگٹی، شہھید بالاچ مری ،شہھید فدا احمد بلوچ ، شہھید ڈاکٹر خالد بلوچ ،شہھید واجہ غلام محمد اور شہھید جنرل اسلم بلوچ اور دیگر تمام شہداوں کی سوچ و فکر اور دی گئی تعلیمات ُان کی ہمت و ہتھیار ہوں تو ُاس قوم کو شکست دینا پاکستان کی بھول اور نادانی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں ۔