درویش ایک آدمی نہیں بلکہ ایک سوچ – زہرہ جہاں

1252

درویش ایک آدمی نہیں بلکہ ایک سوچ

زہرہ جہاں

دی بلوچستان پوسٹ

کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ میں اپنے علاقے سے مند جارہی تھی. راستے میں مجھے ایک سہیلی ملی جو پہلے ہمارے ہمسائے ہوا کرتے تھے. میں بھی خوش ہوئی کہ چلو ایک دوست تو ملی، جس سے اونچ نیچ والا سفر بھی بغیر ڈھلان کے گذر جائیگا. پہلے تو رسمی حال احوال ہوا۔ پھر اسنے ایک بہت ہی عجیب و غریب تعریف سمجھو یا طنز کی میرے اوپر، جسکے بارے میں مجھے نہ علم تھا نہ ہی کچھ پتہ۔ اسکے بول کچھ یوں تھے کہ “یونیورسٹی میں پہنچ کر بھی تم ابھی تک درویش بنے ہوئے ہو۔”

میں بھی حیران ہوتے ہوئے جھٹ سے پوچھ لیا اس سے کہ یہ درویش کیا بلا ہوتا ہے؟ جواب میں وہ بولی “ملنگ”. میں بیان نہیں کرسکتی کہ اس وقت میرے دماغ کا پارہ کتنا اوپر چڑھا تھا کہ کیوں اس نے مجھے “درویش” یعنی ملنگ و ابدال سے تشبیہہ دی ہے۔ بہر حال میں نے غصے کو پی جانے میں ہی بھلائی سمجھا تاکہ طویل سفر بڑے پتھر کی مانند بھاری نہ پڑجائے۔

یہ “درویش” والی بات آتے جاتے میرے دماغ میں تھی ہی، ساتھ میں ذہنی و قلبی سکون کو بھی اپنے ساتھ اس نے جوڑ لیا تھا۔ وہ ایک جملہ ابھی ایک جملے سے ایک سوچ بن گیا تھا۔ اس نے میرے اندر نئے سوچ کی ابتداء کی تھی کہ “درویش ہے کون اور ہوتا کیسے ہے؟
درویش ہونا اچھی بات ہے یا نہیں؟
درویش کو لوگ پسند کرتے ہیں یا نہیں؟
درویش ہونے کی علامات کیا ہیں؟
لوگ کیسے درویش بنتے ہیں؟
درویش ہونے کی نشانیاں کیا کیا ہیں؟

مختصراً جتنے بھی سوال میرے لاشعور میں آئے تھے، میرے دوست کے اس ایک جملے کے بعد جو مجھے اس سے پوچھنے تھے وہ میں خود سے پوچھ رہی تھی. ان سوالوں کا جواب اب میری جستجو بن گئی تھی. خود سےسوالات پوچھنا تو صحیح لیکن ان کے جوابات مجھے دوسروں سے ملے۔

سب سے پہلے میں نے اپنے چچا سے پوچھا، جو کہ ایک سکول ٹیچر ہے, انہوں نے درویش کی تعریف کچھ یوں کی کہ ” درویش ایک خدا پرست بندہ ہوتا ہے. جس کی جستجو خدا ہوتی ہے.”

لیکن یہ جواب میرے سوالوں کیلئے اطمینان بخش نہیں تھا۔ پھر میں نے ایک دوسرے دوست سے پوچھا جوکہ خود کو سوشل ایکٹیوسٹ اور سماجی کارکن مانتی ہے. اس کا جواب بھی ملاحظہ فرمائیں “درویش بس درویش ہوتا ہے. جسے کھانے پینے, اٹھنے بیٹھنے, سونے بچھونے, چلنے پھرنے سے کوئی غرض نہیں ہوتا . جنکا نہ کوئی ماضی ہوتاہے اور نہ کوئی مستقبل. جنکی دنیا بس انکا حال ہوتا ہے، جس میں وہ جی رہے ہوتے ہیں۔

کسی حد تک اب میں قلبی و ذہنی طور پہ مطمیئن ہوگئی تھی لیکن شعوری طور اب بھی میں اپنے سوالوں کے جواب پانے سے قاصر تھا۔ اب کے بار میں نے گوگل چاچا سے مدد لینے کیا فیصلہ کیا. کیونکہ وہی ایک ہوتا ہے، جسکے پاس تقریباً ہر سوال کا جواب ہوتا ہے. انٹرنیٹ پیکج کرواتے ہی بنا کسی دیری کے گوگل چاچا کے پاس پہنچی. چونکہ گوگل چاچا انگریزی اچھی طرح سے سمجھتے ہیں تو میں نے بھی انگریزی میں پوچھ لیا ان سے,
“What is meant by Darvesh”

تو انکا جواب بھی پہلے دو جوابوں سے تھوڑی بہت مطابقت اور تضاد رکھتا تھا۔ انکا جواب بھی پڑھ لیں (اردو میں) , ” درویش ایک فارسی زبان کا لفظ ہے. جن سے مراد وہ مسلمان پرہیزگار لوگ ہیں، جنکا زندگی گذارنے کا اپنا ہی ایک طریقہ ہوتا ہے. جو اپنے غربت اور سادگی سے جانے جاتے ہیں.”

تینوں جوابوں میں ایک چیز مشترک تھا کہ درویش لوگ مرد ہوتے ہیں. جن سوالوں سے جواب بنے تھے ابھی انہی جوابات سے دوسرے سوالات نے جنم لیا تھا۔ اب میرا دماغ اسی کشمکش میں لگ گیا کہ اگر درویش مرد ہی ہوتے ہیں تو میری سہیلی مجھے درویش کیوں بولی؟

سوالوں اور جوابوں کا کھیل جاری رہا ہے، اسی طرح ایک دن فدائی شہید درویش کی ویڈیو نظروں کے سامنے سے گذرا. پہلے تو میں نے اتنی اہمیت نہیں دی ویڈیو کو. کیونکہ اس وقت مجھے تحریکی و تنظیمی حوالے سے معلومات رکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھا. میں بس خود و خودی میں “مست مگن” تھا. وہ خود خودی اور کچھ بھی نہیں بس فریب و دھوکہ تھے. ایک خوابِ غفلت، ذہنی، شعوری اور فکری طور پہ ایک اندھاپن تھا. بہر حال میں نے وہ ویڈیو صرف اس وجہ سے دیکھنے کی جسارت کرلی کہ دیکھوں اس شخص میں اور مجھ میں کونسی چیزیں ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہیں. کیونکہ تضادات تو بہت تھے اور ہیں اب بھی، کیونکہ کہاں وہ پہنچا ہوا ہستی اور کہاں میں جسے خود کا بھی نہیں پتا میں کون ہوں؟ کیوں ہوں؟ اور میرے لوگوں سے, میرے وطن کی باسیوں سے, اور میرے وطن سے میرا کیا رشتہ ہے؟ اس رشتے کی بنیاد کیا ہے؟ اور اس رشتے کی لاج کیسے رکھنی ہے؟ اس رشتے کو دوام کیسے بخشنی ہے؟ اس رشتے کا بھرم کیسے رکھنا ہے؟ اس رشتے کو مدام سلامت کیسے رکھنا ہے؟.

جب موبائل میں ویڈیو کھول کے دیکھا تو بس دیکھتے ہی رہ گیا. وہ بندہ ہنستے مسکراتے ہوئے اپنی جان اپنی مرضی سے دینے کی بات کر رہا تھا، ساتھ میں اپنے وطن کے نوجوانوں کو ایک التجاء اور درخواست کے ذریعے ایک نصیحت بھی کر رہا تھا۔

اس درویش کے چہرے کے خدوخال میں ایک ان سنی اور ایک ان کہے درد کا داستان چھپا تھا. جسے شاید نہ کسی نے سننے کی کوشش کی تھی اور نہ شاید اس نے کبھی کہنے کی کوشش کی تھی. اس کے چہرے پہ غموں کی دھارا تھے سمجھو. جو پیشانی سے شروع ہوکر گردن تک آتی تھیں. زبان جو تھا وہ یوں سمجھو اپنوں کے لیئے مہر و محبت کے موتی جڑھنے کا گہرا سمندر تھا. زبان پہ ہلکی مسکراہٹ اس کے گہری سوچ, فکر سے معمور, انا پرستی سے عاری, دوست سے یاری اور دشمن پہ بھاری ہونے کی گواہی دے رہا تھا۔ جیسے… اس کی آنکھوں میں ایک عجب چاشنی تھی. نظر عقابی نظر سے بھی تیز معلوم ہورہی تھی. ایسے آنکھیں جو بنا کچھ بولے دوست دشمن سب کو سب کچھ خود ہی بتا دیتے تھے. جب غور سے دیکھا تو پتہ چلا ان آنکھوں میں امیدوں کا ایک ایسا سمندر ہے، جن میں نا امیدی کی لہریں چاہ کر بھی تیر نہیں سکتے. پورے چہرے کو ایک ساتھ اگر دیکھو تو ہمت, بہادری, شجاعت, سادگی, عاجزی, دوستی, یاری, وفاداری, مہر و محبت کی ایک زندہ مثال. اگر کوئی پوچھے مجھے خوشحالی, زندہ دلی, قربانی, غمخواری, سنگتی کی ایک بے پایہ اور بے مثال مثال دے دو تو بس اسے درویش بلوچ کی ایک تصویر دکھا دو۔

گوکہ درویش بلوچ کے اس ایک ویڈیو سے مجھے میرے سارے سوالوں کا جواب مل چکا تھا لیکن پھر بھی میں نے اس ایک ویڈیو پہ اکتفا نہیں کیا. درویش بلوچ کے بارے میں اور بھی معلومات حاصل کرنے کے پیچھے لگ گئی. ساری معلومات اگر بیان کروں تو یہ قصہ کبھی ختم نہ ہو. دن شام ہوجائے اور زندگی تمام ہوجائے لیکن درویش کا قصہ کبھی ختم ہی نہ ہو. دوسروں کی تعریف کے لیئے الفاظ نہیں ملتے لیکن درویش بلوچ کی تعریف کے لیئے الفاظ خود آرہے ہیں کہ ہمیں درویش کی تعریف میں استعمال ہونے کا شرف بشخو.

درویش کی تحریم و تعظیم میں کونسے الفاظ استعمال کروں، یہ خود الفاظ بھی نہیں بتاسکتے ہیں۔ بہر کیف درویش کے بارے میں معلومات سے جو نتیجہ میں نے اخذ کیا ہے وہ یہ ہے کہ “درویش صرف ایک آدمی نہیں بلکہ ایک سوچ ہے.” ایک ایسی سوچ جو ہر کسی کے لیۓ اچھا سوچے اور اچھا سوچنے کی تربیت دے. جو غرور و اناپرستی سے میلوں نہیں بلکہ کوسوں دور ہو. جو خوش رہے اور خوش رکھے. جو وطن و وطن باسیوں کی ہر سختی و سوری میں کام آئے. جو وطن کی سلامتی و بقاء کے لیۓ ہمہ وقت مر مٹنے کے لیۓ تیار ہو. جو اپنے عمل و کردار سے سارے معاشرے کو تبدیل کردے. جو سارے بے حسوں کو باشعور کر دے. جو سوۓ ہوۓ قوم کو جگانے کا بیڑا اٹھاۓ. جو بوڑھے والد کو ہمت, ماں کو حوصلہ, بہن کو عزت و عصمت اور بھائی کو غیرت دے اور بچوں کو صداقت و شجاعت کا تربیت دے. جو گلبندن گل وطن کے لیۓ کفن کو دستار بناۓ. جو اپنے بڑے سوچ, فکر, سوچ و عمل سے پہاڑوں کو بھی شرماۓ. جو اپنے شعور کی روشنی سے چاند کی روشنی کو بھی مدہم کرے اور اگر کبھی سورج نہ نکلے یا چاند پہ اندھیرا ہو تو وہ روشن ستارہ بن کے بٹھکے ہوؤں کو راستہ دکھاۓ. جو غیض و غضب اور ہمدردی و رحم دلی میں اپنی مثال آپ ہو. اب چونکہ مجھے درویش کے بارے میں تقریبا سب کچھ معلوم ہوچکا ہے تو میں خود کو بہت ہی خوش قسمت سمجھتی ہوں، جو میری سہیلی نے مجھے درویش سے تشبیہ دی. اب وہ الگ بات ہے کہ میں درویش کے پاؤں کے دھول کے بھی برابر نہیں ہوں۔۔۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں ۔