جنرل اسلم شہادت سے پہلے، شہادت کے بعد – برزکوہی

591

جنرل اسلم شہادت سے پہلے، شہادت کے بعد

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ 

آپ مردم شناسی کہیں یا ادراک، دونوں انسان کے علم و شعور، عقل، حواس، صلاحیت اور بصیرت کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں۔ مگر جب یہ چیزیں انسان کے دماغ سے غائب ہوں تو انسان لامحالہ بے شعور و بے علم اور بے عقل کہلانے اور سمجھے جانے کے مستحق ہوتا ہے۔

میں آج اگر جنرل اسلم کے حوالے اس کے شہادت کے بعد کچھ لکھتا ہوں، کچھ کہتا ہوں یا کچھ رائے قائم کرتا ہوں، مجھے کم از کم کوئی دکت، شرمندگی اور جھجھک محسوس نہیں ہوتا ہے بلکہ اپنے شعور، علم، ادراک اور بصیرت پر ناز اور فخر محسوس ہوتا ہے کہ میں بذات خود جنرل کو جو سمجھا تھا یا سمجھ چکا تھا وہ اس سے بھی کئی گنا زیادہ ثابت ہوگیا۔

کیا ہم بحثیت بلوچ یا بحثیت جہدکار یا مجموعی حوالے سے مردہ پرست، یا منافق و دھوکے باز نہیں ہیں؟ یا پھر لاعلم، بے شعور ادراک اور بصیرت سے عاری ہیں؟ اگر نہیں تو جنرل اسلم کی شہادت کے بعد کیوں اسلم کو ہم عظیم سمجھے؟ کیا اسلم شہادت سے قبل عظیم نہیں تھا؟ کیا انسان شہادت کے بعد عظیم، قابل تعریف، مخلص اور ایماندار ہوتا ہے؟ پھر کیا اس سے پہلے ممکن نہیں ہے؟ کیا دشمن کسی کو مار کر اس کو عظیم تر بناتا ہے؟ یا کیا قبر و کفن انسان کو عظیم بناتے ہیں؟ یا پھر نہیں؟ یایہ ہماری خود کی بے شعوری، لاعلمی، عدم مردم شناسی، ادراک کے فقدان، بدنیتی اور منافقت ہوتا ہے؟

کیا ہم نے اس حوالے سے کبھی غور کیا ہے؟ کبھی سوچا ہے؟ کبھی اکیلے پن میں غور کیا ہے، کچھ جھجھک اور شرمندگی محسوس کی ہے؟ یا نہیں بلکل نہیں؟ اگر بات اور حقیقت آکر بالکل نہیں پر رک جاتا ہے؟ تو بحثیت انسان کس زمرے میں شمار ہوتے ہیں؟

میں بذات خود سوچتا ہوں اور ضمیر مجھے بار بار آواز دیتی ہے، انصاف، حقیقت پسندی اور ایمانداری کا تقاضہ یہی ہے کہ انسان کی زندگی میں اس کے کردار اور قربانیوں کی قدر و اہمیت کرنا سیکھوں اور سمجھوں اس کے بعد کوئی فائدہ نہیں بلکہ شاید منافقت، مکاری، دوروغ گوئی، مصنوعیت میں شمار ہوگا، ہوسکتا ہے میرا ضمیر غلط سوچتا اور سمجھتا ہے، کیونکہ روایات کی خلاف ورزی کرتا ہے کیونکہ روایتی طور پر یہ ہوتا ہے کہ جب انسان اس دنیا میں موجود ہو تو اس کے حصے میں زیادہ تر خامی و دشنام آتا ہے، جب اس دنیا سے کوچ کرکے چلا جاتا ہے تو وہ مکمل پارسا بن جاتا ہے۔ اس شخص میں خامی تھے یا نہیں تھے، کس حد تک تھے یا نہیں تھے، وہ سب اس کے جانے کے بعد ختم ہونگے اور خوبیاں اور تعریفی دور شروع ہوگا۔

میرے خیال میں یہ سوچ و اپروچ بذات خود مکمل روایتی ہے، اس کا انقلابی، علمی اور شعوری سوچ سے ایک فیصد بھی تعلق نہیں ہے۔ کیا ہم ابھی تک مکمل انقلابی نہیں بنے ہیں؟ یا پھر بے شعور انقلابی ہیں؟ کیا بے شعوری خود انقلابی پن میں شمار ہوتا ہے؟

اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ انسان زندگی کی اس سفر میں جب زندہ ہے تو کیا سے کیا بنتا ہے، ہیرو سے زیرو، انقلابی سے غیرانقلابی، بہادر سے بزدل اور بزدل سے بہادر، جہدکار سے غدار اور غدار سے جہدکار، کچھ علم نہیں مگر کچھ نہ کچھ علم ہونا چاہیئے، یہی علم و شعور اور ادراک کی علامت ہے، ورنہ لاشعوری اور لاعلمی کا اعتراف کرنا خود ایمانداری ہے۔

اگر ہم کہتے ہیں وقت ثابت کرتا ہے تو ساتھ ساتھ یہ بھی مان جائیں، ہم خالی خولی انسان نما جانور ہیں، وقت کے بغیر ہم کچھ نہیں سمجھتے ہیں، پھر کمال ہمارا نہیں وقت کا ہوگا۔ پھر وقت آنے پر کوئی بچہ، کم عقل بھی سب کچھ سمجھ سکتا ہے۔

مثال کے طور پر آگ کو ہاتھ لگانے سے کوئی معصوم بچہ پاگل اور بے وقوف بھی سمجھتا ہے کہ یہ جلا دے گا۔ اگر کوئی دور سے یہ جان لے یہ جلانے والی چیز ہے، پھر آپ کہہ سکتے ہے کہ واقعی یہ آگ کے بارے میں شعور ہے، اگر ہاتھ لگانے سے پتہ چل جاے اور نقصان اٹھانے کے بعد پتہ لگ جانے سے یہ بات ثابت ہوتی ہو تو پھر یہ آپ کا نہیں آگ کا کمال ہوا۔

بے شک انسان جب زندہ ہے تو اس وقت ذیادہ نہیں لیکن کچھ حد تک پتہ چلتا ہے کہ وہ کیا ہے اور کیا بن سکتا ہے، اور موت کے بات پتہ چل جاتا ہے، وہ کیا بن گیا۔

یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں تھا، اس حقیقت اور سچائی میں معمولی شک و شبہ نہیں تھا کہ جنرل اسلم کی 25 سالہ جہد قربانی، بہادری، ایمانداری، مخلصی اور محنت و مشقت کے بدولت جنرل اسلم دشمن کے سامنے کبھی نہیں جکھے گا، قومی آذادی تک لڑے گا، سودے بازی نہیں کریگا، دباو کا شکار نہیں ہوگا، قوم اور نوجوانوں کے ساتھ دھوکا نہیں کریگا، آرام و سکون سے نہیں بیٹھے گا۔ خود غرضی، مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہوگا، پھر کیا یہ تمام خصوصیات انقلابی خصوصیات نہیں تھے؟ پھر کیا اسلم زندگی میں عظیم اور انقلابی نہیں تھا؟اگر تھا اس کے باوجود ہم نہیں سمجھے تو اس کے اصل اسباب اور وجوہات کیا تھے؟ کبھی کسی نے ایمانداری سے غور کیا ہوگا؟ سوچا ہوگا؟ جب سوچا ہوگا اور غور کیا ہوگا تو اس وقت ضمیر نے کیا جواب دیا ہوگا؟ کیا پھر وہی جواب حقیقت نہیں ہے؟ اگر اس جواب کو نظرانداز کرنا، اس سے منحرف ہونا کیا بذات خود بے ضمیری کے زمرے میں شمار نہیں ہوگا؟ کیا بے ضمیری انقلابی اور انسانی خصلت ہے؟ کیا بے ضمیری کے ساتھ پورے قوم اور خاص کر نوجوانوں اور جہدکاروں کا اعتماد اخلاقی طور پر حاصل ہونا ممکن ہے؟ نہیں ہرگز نہیں! شاید کچھ وقت تک، کچھ مدت تک، مگر مستقل اور طویل مدت تک ہرگز نہیں۔

آج میرا شعور و علم ادراک اور بصیرت مجھے بار بار سگنل دے رہے ہیں کہ کاروان جنرل اسلم بلوچ مزید منظم و مضبوط شکل اختیار کریگا اور کل اگر زندگی رہا میں اپنے اس ادراک، شعور اور علم پر اسی طرح فخر کرونگا، جس طرح جنرل اسلم کے بارے میں میرا جو ادراک علم اور شعور تھا، آج میں اس پر فخر کرتا ہوں۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔