جنرلوں کا جنرل استاد اسلم
تحریر۔ خالد شریف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اسلم بلوچ سے استاد و جنرل اسلم بلوچ تک کا سفر لفظوں میں بیان کرنا کس طرح آسان مگر عملی طور پر ہم جیسے کمزور انسانوں کے عقل سے باہر ہے کیونکہ جنرل اسلم بلوچ دنیا کےعظیم انسانوں میں سے تھے۔ بس کچھ لوگ دنیا میں عظیم ہوتے ہیں جو عام انسانوں سے بڑھ کر ہوتے ہیں. جن کے حقیقی کردار کو لفظوں میں ڈھالنا ممکنات میں شامل نہیں ہوتا۔
یہ لوگ عظیم اس لیئے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے ذات سے نکل کر اپنے غلام قوم کی مظلومیت اور محکومیت کو محسوس کرتے اور دنیا کی باقی مظلوم اور محکوم انسانوں کیلئے عملاً کچھ کرکے دنیا کو دکھاتے ہیں. ظلم و سامراجیوں کے خلاف اپنے خاندان اور اپنے دنیاوی خواہشات حتیٰ کہ اپنے جان کی بھی قربانی دیتے ہیں. اسی لئے یہ لوگ عظیم بن جاتے ہیں۔.
جنرل اسلم، بلوچ جدوجہد میں ایک اہم ستون ہیں. ان کی بلوچ جہد آزادی میں خدمات، صلاحیتیں، کمنٹمٹ اور وابستگی مثالی رہی ہے اور بلوچ تاریخ میں سنہرے الفاظ میں یاد رکھی جائے گی۔ انہوں نے مشکل اوقات میں قائدانہ کردار ادا کرکے تاریخی فیصلوں کے ذریعے دشمن کے خلاف بہترین حکمت عملی اپنا کر دشمن کو کاری ضربیں لگائیں. ایک عام سیاسی کارکن کی حیثیت سے بلوچ جدوجہد کا حصہ بن کر اپنے صلاحیتوں اور بیش بہا قربانیوں کی وجہ سے صف اول کے رہنماؤں میں شامل ہوگئے. وہ موجودہ تحریک میں روز اول سے اپنا مثبت کردار ادا کرتے آئے اور آخری سانس تک اپنے موقف پر عملی طور پر ڈٹے رہے. جنرل استاد اسلم بلوچ اسی لیئے عظیم انسان تھے۔
جنرل اسلم بلوچ نے اپنی زندگی کے پچیس سال اپنے مظلوم اور غلام قوم کی آزادی کیلئے وقف کردیا، ان پچیس سالوں میں وہ کن کن مشکلات سے گذرا ہے، اپنے قوم کو یہ کبھی احساس نہیں کروایا کیونکہ جنرل اسلم بلوچ ایک ایسے ہستی تھے، جو اپنے قوم کی مظلومیت اور محکومیت کو دیکھ کر اُسے ایسا احساس ہوا کہ جنرل استاد اسلم بلوچ نے اپنے قوم کی آزادی کیلئے اپنے جگر کے ٹکڑے جوان بیٹے ریحان بلوچ کو فخر سے رخصت کرکے قربان کردیا۔
جنرل اسلم بلوچ کے بارے میں لکھنے سے ہاتھ کانپتے ہیں اور یقین ہی نہیں ہوتا ہے کہ استاد ہمارے بیچ نہ رہے، دماغ بار بار یہ سوچ کر سن ہوجاتا ہے اور غیریقینی کیفیت میں ہی رہ جاتا ہے. استاد اتنے عظیم تھے کہ میرے پاس ایسے الفاظ نہیں کہ میں ایسے عظیم ہستی کے بارے میں لکھ سکوں، کیونکہ شہدا کے بارے میں کچھ لکھنے یا اُنہیں یاد کرنے سے ایسے احساس اور درد جاگ اٹھتے ہیں کہ مجھ جیسے ایک کمزور انسان سے بیان نہیں ہوسکتے. میں جنرل استاد اسلم بلوچ کے بارے کچھ لکھ کر بس اپنے دل کو تسلی دینے کی کوشش کر رہا ہوں۔
وہ قومیں خوش نصیب ہوتے ہیں، جن کو جنرل استاد اسلم جیسے عظیم انسان نصیب ہوتے ہیں، جنرل اسلم بلوچ جیسے لوگ اپنے غلام قوم اور دنیا کے مظلوموں کیلئے ظلم اور سامراجوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنتے ہیں۔ .
جنرل استاد اسلم بلوچ کی شہادت ہمارے لئے نقصان اور ایک ایسا درد ہے جو ہمیں بار بار یہ احساس دلاتا رہیگا کہ ہم کمزور نہیں ہیں اور ہمارے حوصلے ایسے بلند ہیں، جیسے بولان و چلتن کے پہاڑ ہوں کیونکہ ہمارے پاس استاد کے فکر و نظریئے اور استاد کے فلسفے ہیں. استاد ہمارے ساتھ ہے، ہر وقت ہمارے دل میں ہمارے دماغ میں اور ہمارے ہر اُس محاز پر موجود ہے، جب ہم دشمن پر وار کرتے ہیں۔ کیونکہ ہمیں یہ نظریہ و شعور اور یہ سوچ استاد کا دیا ہوا ہے. جنرل اسلم بلوچ کی قربانی ایک ایسی قربانی ہے، جسے آزادی کے تحریکوں میں عظیم مقصد کیلئے عظیم قربانی کہاجاتا ہے. ایسے ہستیوں کا نقصان اپنی جگہ اگر ہم مثبت حوالے سے دیکھیں، دنیا میں ایسے عظیم قربانی غلام قوموں کو جگاتے ہیں۔
یہ سامراج پاکستان اور اُس کے ہمدرد چین کی بھول ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم جنرل اسلم بلوچ کو شہید کرکے بلوچ قوم اور بلوچ قومی تحریک کو کمزور کرینگے، بلوچ قوم ان ستر سالوں سے ایسے رہنماؤں کی قربانی دیکر آرہا ہے. شہید بالاچ خان مری، شہید چیئرمین غلام محمد بلوچ، شہید نواب اکبر خان بگٹی، شہید ڈاکٹر خالد بلوچ، شہید سدو مری، شہید صباء دشتیاری، جیسے مدبر رہنماؤں کی شہادت سے پاکستان اور اُس کے سامراج اتحادی چین کے گھناؤنی سازشوں اور سامراجی منصوبوں کوکسی بھی قیمت پر پایہ تکمیل تک نہیں پہنچاسکتے بلکہ بلوچ قوم اور بلوچ قومی تحریک کبھی بھی کمزور نہیں ہوا بلکہ مزید بلوچ قومی تحریک کو ان شہادتوں سے توانائی ملی ہے۔ .
ہمیں نا کمزور ہونا ہے، نا مایوس ہونا، میں ایک ایسے شخص کی مثال دیتا ہوں جو بار بار ہارنے سے مایوس نہیں ہوا، پھر بھی آگے کی طرف بڑھتے گئے. یہ کہنا ہے 1938ء میں کہرلی نام کا ایک آدمی اپنے ملک بھر کا بیسٹ پیسٹل شوٹر تھا، جتنے بھی نیشنل چیمپین شپز منعقد ہوتے، وہ اُن کو جیت چکاتھا اور سب کو یقین اور کنفرم تھا کہ 1940ء کے اولمپکس میں گول میڈل کہرلی کو ہی میلگا، اُس نے سالوں ٹریننگ کی تھی، اُس کا ایک ہی سپناتھا ایک ہی فوکَس کہ مجھے اپنے اس ہاتھ کو دنیا کا بیسٹ شوٹنگ ہینڈ بناناہے، اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوا۔
1938ء کو آرمی کا ایک ٹریننگ کیمپ چل رہاتھا کیونکہ وہ آرمی میں تھا، تو ایک ایکسیڈنٹ کے دوران اُس کا وہی ہاتھ جس سے اُسنے گولڈمیڈل جیتناتا، زخمی ہوکر ضائع ہوگیا۔ اُس کا سپنا اور اسکا فوکَس سب ختم ہوگیا، اُس کے پاس دو راستے تھے باقی کی زندگی وہ روتارہے، کہیں جاکر چھپ جائے یا اپنے اسی فوکس پر لگاتار محنت کرتا رہے، اب محنت اور فوکس کیلئے اسکے پاس بچا کیا تھا؟ ایک الٹا ہاتھ، ایک ایسا ہاتھ جس سے وہ لکھ تک نہیں سکتاتھا، ایک مہینے تک اُس کا علاج چلتا رہا، ایک مہینے بعد اس نے ٹریننگ شروع کی، اپنے بائیں ہاتھ پر ٹریننگ کے ایک سال بعد 1939ء میں وہ واپس میدان میں آئے، نیشنل چیمپین شپ ہورہی تھی، وہیں بہت سارے پیسٹل شوٹرز تھے، وہاں پر جاکراس نے سب کو مبارکباد دی، اور سب کہہ اٹھے کہ بھائی یہ ہوتا ہے جذبہ کہ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی تم آئے ہو، ہمیں دیکھنے کیلئے اور ہمارا جذبہ و حوصلہ بڑھانے کیلئے۔
کسی کو بھی پتا نہیں تھا کہ وہ ایک سال سے ٹریننگ کررہاتھا اپنے بائیں ہاتھ پر اور اُس نے جواب دیا کہ میں یہاں پہ تمہارا حوصلہ بڑھانے نہیں آیا ہوں، آپ سے مقابلہ کرنے آیا ہوں۔ باقی سب اپنے دائیں ہاتھ سے مقابلہ کررہے تھے اور کہرلی اپنے بائیں ہاتھ سے اور پھر بھی وہ مقابلہ کہرلی جیت گیا۔
دنیا میں ہمت ہارنے والا اور مایوس ہونے والا انسان کبھی نہیں جیت سکتا اور ہمیں اپنے شہیدوں کی فکر، نظریہ، اور سوچ کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں ۔