بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد تعلیم بشمول اعلی تعلیم قانونی اور آئینی طور پر صوبوں کے دائرہ اختیار میں دے دیا گیا ہے۔جس کی وجہ سے تعلیم اب صوبائی معاملہ ہے جس کیلئے صوبائی سطح پر اعلی تعلیمی کمیشن بنا کر انہیں مضبوط کرنا چاہیے۔لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے صوبائی اختیارات ہونے باوجود گزشتہ دن وفاق کی جانب سے قومی نصاب کونسل کا اجلاس منعقد کرنا اور پورے ملک میں تمام صوبوں کیلئے یکساں نصاب مرتب کرنے کا فیصلہ کرنا ہم سمجھتے ہیں کہ یہ غیر آئینی اور غیر قانونی عمل ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ باقی صوبوں میں اعلی تعلیمی ادارہ یعنی صوبائی ہائیر ایجوکیشن کمیشن قائم کر دی گئی ہے تاکہ صوبوں میں اعلی تعلیمی شعبے کے بڑھتی ہوئی ضروریات کو بہتر طریقے سے سمجھا اور پورا کیا جاسکے۔اور جامعات میں تعلیم کے معیار کا تحقیقی،سائنسی و تکنیکی بنیادوں پر تعین کیا جاسکے۔لیکن ہمارے ہاں ابھی تک صوبائی ہائیر ایجوکیشن کمیشن قائم نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے صوبہ بلوچستان کے تعلیمی پسماندگی کو سامنے رکھ کر تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کیلئے پالیسی تشکیل دی جاسکے۔
ترجمان نے آخر میں کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم کے حوالے سے صوبائی گورنمنٹ کے اختیارات اور ذمہ داریاں زیادہ بڑھ گئی ہیں۔اس لئے صوبے کے جامعات کو جو بھی وسائل درکار ہوں گے وہ صوبائی گورنمنٹ مہیا کرے گی۔اس لئے صوبائی گورنمنٹ کو چاہیے اپنے اختیارات کو استعمال میں لاکر صوبے کی جامعات کے سربراہاں کے تعنیات کے طریقہ کار کو واضح کریں اور ان کے ساتھ ساتھ تعلیم کے حوالے سے قانون سازی کرے۔