امریکی جریدے “فارن پالیسی” نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے گذشتہ برس امریکی صدر پر ترکی کے خلاف معاشی جنگ مسلط کرنے کا الزام لگایا اور انہیں انقرہ کا ’دشمن‘ قرار دیا تھا مگر ان کی دشمنی اب جلد ہی دوستی میں بدلنے والی ہے۔
امریکی جریدے کے مطابق آئندہ چند ماہ کے دوران ترک صدر رجب طیب ایردوآن امریکی صدر کا ترکی میں استبقال کریں گے جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔
فارن پالیسی کے مطابق امریکا اور ترکی درمیان تعلقات میں مثبت تبدیلی کی تازہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب امریکا نے شام سے فوج نکالنے اور علاقے کو ترکی کےرحم وکرم پر چھوڑنے کا اعلان کیا۔ اس سے قبل ترک صدر امریکی فوج کو شام میں سخت نتائج کی دھمکیاں دیتے پائے گئے تھے۔
انہوں نے دھمکی دی تھی کہ شام میں موجود امریکی فوج کو عثمانی طمانچہ لگ سکتا ہے۔ ترکی نے شام میں داعش کے خلاف جنگ میں تعاون کے بجائے اس جنگ میں مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کی کیونکہ ترکی داعش کے خلاف جنگ میں سنجیدہ نہیں بلکہ اس کا ہدف شام میں کرد جنگجو ہیں۔
امریکی جریدے کے مطابق شام میں امریکا اور ترکی کے مفادات الگ لگ ہیں تاہم اس کے باوجود دونوں ملکوں نے شام کے حوالے سے ایک دوسرے کے ساتھ اختلافات ختم کرنے کی کوشش کی۔ اس کے باوجود ترکی کے صدر اپنے وعدوں کو ایفاء کرنے میں سنجیدہ نہیں۔
اس راز کو کوئی نہیں جانتا کہ آخر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عجلت میں شام سے فوج نکالنے کا فیصلہ کیوں کیا۔ ممکن ہے کہ اس کا تعلق ٹرمپ کے بیرون ملک امریکی فوج کی تعیناتی کے حوالے سے سابقہ موقف سے ہو کیونکہ وہ بار بار یہ کہہ چکے ہیں امریکا نے پوری دنیا میں امن کا ٹھیکہ نہیں اٹھا رکھا ہے۔
شام سے امریکی فوج کے انخلاء کے نتیجے میں امریکا اور شام کے کردوں کے درمیان موجود اتحاد ختم ہوسکتا ہے۔
دوسری جانب امریکا کو اس وقت ایران کے خلاف جنگ میں معاونت کی ضرورت ہے۔ ترکی ایران کے خلاف امریکا کی کبھی مدد یا حمایت نہیں کرے گا۔ ماضی میں سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں ترکی نے ایران پرعاید کردہ پابندیوں کو غیر موثر کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔
امریکی انتظامیہ کا خیال ہے کہ شام سے امریکی فوج کا انخلاء اور کرد پروٹیکشن یونٹس کو تنہا چھوڑنے سے امریکا ایران سے ترکی کو نکالنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ اس طرح ٹرمپ ایردوآن کو ایران کے خلاف پابندیوں میں اپنا حمایتی بنا سکتے ہیں۔
اب تک ترکی امریکا سے یہ مطالبہ کرتا رہا ہے کہ وہ انقرہ کو ایرانی تیل کی خریداری میں مکمل اور دائمی استثناء فراہم کرے۔ ترکوں کو ایران کی طرف سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا۔ دوسری جانب تہران تری کو موجودہ حالات میں اقتصادی فواید اٹھانے کا موقع فراہم کررہا ہے۔ اس کے نتیجے میں ترکی ایران میں اپنے اقتصادی نفوذ میں اضافہ کرکے امریکی پابندیوں کو غیر موثر بنا سکتا ہے۔
اوباما کے دور حکومت میں ایردوآن کو متعدد بار کھلے عام تہران میں دیکھا گیا۔ وہ ایرانی قیادت کی حمایت کرتے اور ایران کی جوہری سرگرمیوں کی پردہ پوشی کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ ترکی کا ان اقدامات کا ہدف امریکا کو یہ یقین دلانا ہے کہ انقرہ واشنگٹن کا حلیف نہیں ہوسکتا۔
استنبول میں ایرانی وزیر خارجہ کی اپنے ترک ہم منصب سے ملاقات امریکا کے شام سے انخلاء کے ما بعد مرحلے کو اور بھی پراسرار بنا رہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے داعش کے خلاف جنگ ادھوری چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ داعش کے خلاف جنگ کو ترکی پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔