بلوچ جہد مسلسل
شانتل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جب میں چھو ٹی تھی ھمیشہ ابو کے آنے کی انتظار میں تھی. دفترکےمصروفیات کی وجہ سے مہینوں میں ابو کاآنا ھوتا تھا، ابو کا اس لیئے ذیادہ انتظار کرتی تھی. آھستہ آھستہ ابو نے مھینے میں بھی آنا چھوڑ دیا، کیونکہ دفتر کے کاموں کے ساتھ سرکلز اور سیاسی سرگرمیوں میں بھی زیادہ وقت گذار لیا کرتا تھا. جب میں اسکول جانے کی قابل ھوئی تو تب ابو کے کچھ دوست گھر آتے اور ان سے مل کر یہ پتا چلا کے کہ ھمارے ملک بلوچستان پر ریاست پاکستان کا قبضہ ہے.
ایسے ہی ھوتے ھوتے میں پانچویں کلاس میں تھی، جب ابو کے کچھ دوست اغوا ہوئے، جس کی وجہ سے ابو پریشان تھے، روز بولا کرتے تھے کہ دعاکرو ان سنگتوں کو بازیاب کریں، لیکن کچھ مھینے بعد انکو شھید کرکے ویرانے میں لاشیں پھینکے گئے پاکستان کے صاف دامن سیکورٹی فورسز نے مختلف حربے دن بدن استعمال کرنا شروع کیا اورعلاقے میں ھر ایک چوکی پر معصوم لوگوں اور بچوں کو تنک کرتے تھے تاکہ لوگ انکا ساتھ دیں۔
بوڑھے باپ کو مرغابناکر اسکے پیٹ پر کوئی وزنی سامان رکھتے تھے. یہ سب اس لیے کرتے تھے تاکہ لوگ خوف میں آئیں اور بلوچ قومی تحریک سے دستبردار ہوجائیں لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ بلوچ عوام میں ریاست کے خلاف شعور بڑھتا گیا۔
لیکن جو آزادی کی بات کرتا، اسکو مختلف طریقے سے تنگ کرتے. گھروں پہ چھاپےمارتے، بہت سے ماوں کے جوان بیٹوں کو نیند سے اٹھا کے لے جاتے تھے، کچھ مہینے تک اس پر ظلم کرکے بعد میں لاش پھنکتے تھے، بہت سے گھروں کو اسی طرح ویران کردیاگیابلکہ ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے۔
تحریک انکے اس طرح کے ظلم وجبر سے نہیں رکا، ہر شھید کے بعد کئی اور پختہ نوجوانوں نے تحریک میں حصہ لیا اور کارواں بنتا گیا. جب پاکستان نے یہ دیکھا کہ لوگ اسکااصلی چہرہ جان چکے ہیں تو کچھ گیدڑوں کو سامنےلے آیا، جنکو بالکل چھوٹ دیا گیا تھا کہ جو آزادی کی بات کرے، اسکو اغوا کرو لے آو، بڑے بڑے فوجی کیمپوں میں اور ان پر ظلم و تشدد کیا جاتا تھا اور بھی کئی برے کام کئے جاتے تھے، بھتہ وصول کرنا، منشیات کے کاروبار کو عام کرنا، عام عوام کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کرنا کیونکہ ریاست کی طرف سے ان کو کھلی چھوٹ تھی۔
کچھ لوگوں کو پیسے دیکر تحریک میں شامل لوگوں کو تنگ کرنا، انکو دھمکی دینا،اسکی مثال سردار اور میر ہیں جو تحریک میں شامل نوجوانوں کو پہلے بہت کوشش کرتے کہ انکو اپنے لپیٹ میں لیں، پھر اگر جس نوجوان نے یہ بہتر سمجھ لیا کہ ایسے لوگ کرائے کے ھو تے ھیں تو اس نو جوان کو اغوا کرتے ھیں، سرنڈر کروانے کی کوشش کرتے ھیں، اگر ایسا نہ کرے تو تشدد کرکے شھید کرتے ھیں۔
ان سب کے باوجود تحریک روز بروز بڑھتا جارھا ہے، ہزاروں نوجوان آج بھی عقوبت خانوں میں اذیت سہہ رہے ہیں، ہزاروں شھزادے شھید ھوے. جیسے کہ لمہ یاسمین اپنے جگر کے ٹکڑے ریحان جان کو اپنے ہاتھوں سے شھادت کا جھنڈا پہناکرہمیشہ کیلےالوداع کرتی ہے. لمہ یاسمین کو جتنا سلام کہوں کم ہے. لمہ یاسمین کی قربانیاں قابل احترام ہیں. بیٹے کی شہادت کے بعد لمہ شکرانے کی نفل پڑھتی ہے کہ بہادر بیٹے نے اپنا فرض اداکرلیا اور کامیاب ہوگیا جوکہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائیگا.
اسکے بعد شھید رازق اپنے دوستوں کے ساتھ دشمن پر قھر بن کہ گرا، اسکی بھی مثال بھت کم ملتی ھے کیونکہ ریاست نے بہت سے سہولتیں فراہم کی ہے اپنے اداروں کو، ان سب کے باوجود ہمارے بہادر بھائیوں نے ادھر ہی جا کر ریاست کو یہ بتایا کہ بلوچ قوم ایک زندہ اور بہادر قوم ہے۔
سلام ان سارے شہیدوں کو جنہوں نے سرزمین کا حق ادا کرتے ہوئے اپنا فرض نبھایا اور سلام ان بھائیوں کو جنہوں نے اپنا ہر ذاتی خواہش چھوڑ کر پہاڑوں میں مادروطن کی حفاظت کرکے اپنا فرض نبھارہےہیں۔
شھید استاد اسلم جو ایک سوچ کا نام ہے. جنہوں نے اپنی ہرخواہشں سے بڑھ کر بلوچ قوم کو غلامی سے نجات دلانا چاہا، جوہر بلوچ کےدل. میں شمع کی طرح ہےاور اسکے دیئےہوئےتربیت پر عمل کر رہے ہیں اور استاد کے سوچ کو بہتر طریقے سے آگے لے جانے کیلئے تیار ہے۔ .
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔