بلوچ رہنماء بشیر زیب بلوچ نے گذشتہ روز قطر میں امریکہ و طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے کہا کہ پاکستان ایک مرتبہ پھر مکاری کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے افغان سرزمین پہ اپنے دہشت گردانہ پالیسی کو دوام دے کر اپنی ہی منظور نظر حکومت لانا چاہتا ہے اور اس تمام دورانیہ میں سب سے بڑی کوشش افغانستان میں چین کی اثرورسوخ کو بڑھانا اور انڈیا سمیت چین مخالف قوتوں کی اثرو رسوخ کو کمزور کرنا اہم ترجیحات میں شامل ہے اس سارے رونما ہونے والی تبدیلی کی پشت پناہی میں اصل قوت چین کی ہے ۔
بشیر زیب بلوچ نے کہا کہ جس طرح سوویت یونین کے وقت افغانستان میں آئی ایس آئی مجاہدین اور طالبان کی شکل میں میدان میں کھود پڑا اور امریکی مفادات کے خاطر اور اب چین کی معاشی اور عسکری مفادات کی خاطر پاکستان ایک مرتبہ پھر سرگرم ہے اور مذاکرات کی شکل میں چینی مفادات کو پایہ تکیمل تک پہنچا رہا ہے اور اس تمام اقدامات کے عیوض پاکستان اپنی کمزور معشیت کو مستحکم کرنا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک دفعہ پھر افغان سرزمین پر خونی کھیل کھیلنے کےلئے تیاری کررہا ہے ۔
انہوں نے کہا اگر اس مرتبہ پاکستان اور چین افغانستان پر جس شکل میں بھی اپنے عزائم کو پائے تکمیل تک لے جانے میں کامیاب ہوئیں تو پہلے کی نسبت اس مرتبہ کشت و خون میں اضافہ ہوگا ، مذہب کے نام پر پاکستان اپنی اور چین کی معاشی اور عسکری مفادات کے عیوض افغان اور بلوچ قوم کی بڑے پیمانے پر نسل کشی کی صرف منصوبہ بندی نہیں کررہا بلکہ اس پر تیزی کے ساتھ عمل بھی کررہا ہے۔
بشیر زیب بلوچ نے کہا کہ آج سے نہیں بلکہ سترسالوں سے بلوچ اور پشتون کا مشترکہ دشمن اور خاص کر ڈیورنڈ لائن کے مسئلے کے ساتھ دیگر کچھ چیزوں پر مفادات مشترک ہیں اور اسی نظریہ و سوچ کی بنیاد پر پشتون اور بلوچوں کا ایک نظریاتی اور فکری رشتہ ہے اور ضرورت بھی اسی امر کی ہے اس دفعہ بلوچ اور پشتون ملکر منظم شکل میں پاکستان کے خلاف اپنی قومی دفاع اور قبضہ کے خلاف لڑیں بصورت دیگر دونوں اقوام ہمیشہ کے لیے پاکستان اور چین کے غلامی میں چلے جائیں گے ۔