“پُر گنجیں سر ڈگار ءِ دو شهدیں زبان”بلوچی اور براہوئی زبان”
ڈاکٹر شکیل سمین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ قوم کو الله نے دو ایسی مادری زبانوں (بلوچی اور براهوئی زبان) سے نوازا ہے، یہ دونوں زبانیں بلوچ قوم میں اپنی حسب ضرورت اور علاقائی حالات اور واقعات کی ضرورت کے مطابق استعمال کیا جاتا ہے، جب مکران سے سفر کرکے ہم کوئٹہ، قلات، مستونگ اور خضدار اور دوسرے بلوچ علاقوں کی جانب رخ کرتے ہیں تو ان علاقوں میں ہمیں بیشتر اپنی براهوئی زبان میں باتیں کرنی پڑتی ہیں بلکہ ان علاقوں میں براہوئی زبان میں باتیں کرنے کی ایک الگ چاشنی ہوتی ہے، دل ایسی کیفیت محسوس کرتا ہے کہ بس دل چاہتا ہی چاہتا ہے کہ اپنی یہ زبان ضرور سن لوں، سیکھ لوں، اور اپنے ان علاقوں کے بلوچ لوگوں سے براہوئی زبان میں باتیں کر لوں، کیونکہ یہ دونوں مادری زبان الله تعالی کی نعمتیں ہیں، جس نے بلوچ قوم کو ورثے میں دی ہیں، اور اس وجہ سے بلوچستان کے زیاده تر علاقوں میں رہنے والے بلوچ ان دونوں زبان (بلوچی زبان اور براہوئی زبان) جانتے ہیں، باتیں کرتے ہیں، حتیٰ کہ شاعری بهی کرتے ہیں، بلوچ قوم کے ان دونوں زبانوں (بلوچی زبان اور براہوئی ربان) میں شاعری کی بهی ایک الگ سا مزه پایا جاتا ہے، ان دونوں زبانوں (بلوچی زبان اور براہوئی ربان) میں موسیقی، گانے وغیره سننے اور بلوچستان کے پہاڑی علاقوں، بیابانوں، شکار گاہوں، جنگلوں، خوبصورت گاؤں اور دیہاتوں کی سیر وتفریح کو زیب وزینت دیکر قدرت کے کارناموں کی صفت کو جان بخشتے ہیں۔
جب ہم بلوچستان کے خوبصورت وادیوں اور دیہاتوں کی دلکش راستوں، آواران اور بیلہ کو الگ کرنے والی پہاڑی دشوار گزار راستے (لّک) جہاں شیریں اور فرهاد کے مزار موجود ہیں، کیچ کی طرف جانے والی متعدد پہاڑی چڑهائیوں (بُزی) اور شال کے راستے میں واقع (لکّ پاس) جیسے خوبصورت اور قدرت کے کرشماتی نظاروں کا دیدار کرتے ہیں، تو اس دوران اگر هم اپنی ان دونوں زبانوں (بلوچی زبان اور براہوئی زبان) کی موسیقی نہ سن لیں تو سفر بالکل ادهورا محسوس ہوتا ہے، الله نے تو کمال کی ہے کہ ان علاقوں کی مطابق ہی ان دونوں زبانوں کو بلوچ قوم کو عطا فرمایا ہے، مثال کے طور پر اگر ایک مصوّر اگر تصویر کشی کرتا ہے تو اس کے دل میں یہ خواہش ضرور پائی جاتی ہے کہ لوگوں اسکے مصوّری کے کارناموں کی توصیف کیلئے اچهے اچهے لفظ ڈهونڈ کر انکی کارکردگی کی تعریف کریں، شاید پروردگار نے یہی سوچ کر بلوچ قوم کو دو ایسی زبانیں (بلوچی زبان اور براہوئی زبان) عطاء فرمائی ہے جو کہ قدرت اپنے قدرت کے کرشماتی کارناموں کی خوبصورتی کو زیب وزینت پہنانے کیلئے ہی ان دو زبانوں کو وجود میں لائی ہے، شاید بلوچ سرڈگار، بلوچ سرزمین کی خوبصورتی کو بیان کرنے میں ان دو زبانوں میں ایسی خوبصورت الفاظ پائے جاتے ہیں جو بلوچستان کی خوبصورت وادیوں، چراگاہوں، شکار گاہوں، دیہاتوں، چشموں اور طرح طرح کی نعمتوں اور قدرت کے کرشماتی کارناموں کی صفت کرسکیں شاید دوسرے زبانوں کے لفظوں میں ایسی ہمت ، جرأت اور سکت نہ ہو کہ وه قدرت کے کرشماتی نِظاروں کی تعریف کرسکیں-
قدرت کے بنائے گئے خوبصورت بلند پہاڑوں، میدانوں، بیابانوں، پِیشوں (مزری)، چِگردوں، کہیر، کوهی سیّدوں (ہرن)، گدانوں، کُڈّک اور کاپر، کرک، کونر اور جُگروں کو صرف اور ان دو زبانوں “بلوچی زبان اور براہوئی زبان” میں خوبصورت لفظوں سے سجا کر قدرت کو خوش کرنے کیلئے کافی ہیں، ورنہ دوسرے زبانوں کے الفاظ میں اتنی شیرینی نہیں پائی جائے، قدرت بهی جگہ جگہ سمجهداری کا مظاہره کرکے خوبصورت کارناموں کو سرزمین کے ان جگہوں میں دکهاتا ہے، جہاں ایسے لفظ موجود ہوں تاکہ انکے خوبصورت کارناموں کی خوبصورت الفاظ میں تعریف کیا جاسکے تاکہ قدرت وہاں کے بندوں سے مطمئن ہوسکے! (میں معذرت کرتا ہوں کچه چیزوں کے نام بلوچی الفاظ میں اس تحریر میں شامل کر رہا ہوں کہ ان چیزیوں کا اردو میں کوئی لفظ نہیں اور وه چیزیں صرف بلوچستان میں پائے جاتے ہیں، اسلیئے انکے دوسرے زبان میں لفظ موجود نہیں)
بلوچ قوم کی سب سے بڑی خوشبختی اور مزے کی بات یہ ہے کہ اگر وه ایک دوسرے کے ساته اپنے ذاتی اور رازداری کی باتیں کرنا چاہیں تو یہ دو زبانیں بلوچ قوم کے لئے سنگ میل کی حیثیت رکهتے ہیں، کیونکہ دوسرے اقوام کیلئے یہ دونوں زبانیں سمجهنا انکے بس کی بات نہیں ہے کہ وه بہ یک وقت بلوچ قوم کے ان دونوں زبانوں کی باتیں سمجه سکهیں!
میرے کچه دوست اسٹڈی ٹرپ پر چند دنوں کیلئے لاہور گئے تهے تو وہاں کے لوگ خود حیران ره چکے تهے کہ بلوچوں کی باتیں ہمیں سمجه میں نہیں آتیں، کیونکہ لاہور کے لوگوں نے کوشش کی تهی کہ ہم بلوچی زبان سیکه لیں اور کم سے کم سمجه تو سکیں، تو ہوٹل کے کسی بار والے نے التجاءِ کی تهی کہ تم لوگ صرف مجهے کهانا، پانی وغیره لانے کیلئے بلوچی زبان میں کچه جملے سکها دو تاکہ تمهارے حکم پر میں کهانا لاسکوں، تو لاہوری بهائی کی التجاء پر بلوچوں نے انکو چند جملے سکهائے تهے ( آپ ءَ بیار= پانی لاؤ وغیره وغیره) تو دوسرے دن کسی بلوچ نے اپنی دوسری زبان (براہوئی زبان) میں بار والے کو آواز دی تهی کہ “ایلم دیر ہت” تو یہ بات لاہور کے بهائی کی سمجه میں بالکل نہیں آرہی تهی تو اس نے آکر دوستوں سے سوال کیا تهی کہ بلوچ بهائی ! بلوچ قوم میں ایک ہی پانی لانے کیلئے آپ لوگ کتنے الفاظ استعمال کرتے ہو کبهی کہتے ہو “دِیر” اور بیک وقت کہتے ہو “پانی” لہذا آپکی زبان میری سمجه میں بالکل نہیں آتی۔
جب دوستوں نے لاہور کے سفر کی یہ کہانی سنائی تو مجهے فوراً اپنے بوڑهے اور بزرگوں کی باتیں یاد آئیں، جنہوں نے اکثر یہ کہا تها کہ بلوچ قوم کی بنیادی زبان “بلوچی زبان” تهی مگر وقت اور حالات کومدنظر رکهتے ہوئے بلوچ قوم نے اپنی رازداری اور کوڈ ورڈ میں بات کرنے کیلئے اپنے لئے دوسری زبان “براہوئی زبان” کا استعمال کیا تاکہ دشمن لوگ بلوچ قوم کی نقل وحرکات، اور دوسرے راز داری کی باتوں کو با آسانی سمجه نہ سکیں، کیونکہ اس دور میں بلوچ قوم اور برطانوی سامراج کے درمیان خونریز لڑائیاں ہوتی تهیں تو مجبوراً بلوچ قوم نے اپنے لئے دو زبانوں کا استعمال کرنا مناسب سمجها۔
کچه لوگ کہتے ہیں کہ بلوچ قوم جب ایران کے کوه البرز سے ہجرت کرکے بلوچستان میں آئے تهے تو یہاں پہلے سے دراوڑی زبان کے لوگ موجود تهے تو بلوچوں کا اٹهنا بهیٹنا ان لوگوں سے ہوا تو اس وجہ سے دراوڈی زبان کے لفظوں نے اپنے کچه اثرات بلوچ قومی زبان پر چهوڈ دیئے، اور براہوئی زبان کا لفظ ” کوه البرز” سے وجود میں آیا ہے جب بلوچ قوم کوه البرز سے آئے تهے۔
یہ لفظ کوه البرز سے برز کوهی (بلند پہاڑوں میں رہنے والے بلوچوں کے لئے استعمال ہوتا تها)، اور وقت گذرنے کے ساته آہستہ آہستہ لفظ برز کوہی سے براہوئی کا لفظ زبان میں زیاده تر استعمال ہونے لگا-
اگر ہم اس تناظر میں دیکهیں تو لفظ براہوئی کا مطلب یہ ہوگا ” بلند پہاڑوں میں رہنے والے بلوچ”
کوه البرز سے ہجرت کرنے والے بلوچ قلات، مستونگ، خضدار اور دوسرے علاقوں میں آکر بسنے لگے اور بعد میں آنے والے بلوچ مکران میں بسنے لگے، میڈیکل سائنس اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ ایک ہی نسل کے انسان چاہے جس علاقوں میں رہیں، جن حالات میں رہیں، گرم سرد، خشک چاہے دنیا کے جس کونے میں ہوں مگر انکی وراثتی خصوصت ہیں وه کبهی غائب نہیں ہوسکتی بلکہ نسل درنسل خصوصات منتقل ہوتی رہتی ہیں، کیونکہ یہی خصوصیات انسانی جسم کے خلیے(Cell) کے نیوکلیئس (Nucleus) میں وراثتی ماده کروموسومز (Chromosomes) کے اندر ڈی این اے (Deoxyribonucleic Acid) کے ٹکڑے Genes میں Codon کی شکل میں پائی جاتی ہیں، جسطرح اولاد اپنی والد سے مشابہت رکهتا ہے، اس طرح ماں اور باپ کی خصوصیات انکے اولاد میں پائی جاتی ہیں،
اسطرح علاقائی، اور ظالم زمانے کی طاقتوں نے بلوچ قوم کو مختلف علاقوں ایران، افغانستان، سندھ اور دوسرے علاقوں میں منتشر کرکے زندگی گزارنے پر مجبور کیا ہے مگر بلوچ قوم کی جو نسل در نسل وراثتی خصوصیات ہیں وه آج بهی بلوچ قوم کے اندر موجود ہیں، اسطرح اگر آپ سندھ میں جاؤ تو سنده میں بسنے والے بلوچ اپنی مادری زبان بهول چکے ہیں مگر وه شکل اور صورت کے اعتبار سے بالکل سندهی قوم سے الگ ہیں، ان کے اٹهنے اور بیٹھنے کے انداز سب کچه الگ ہیں، کیونکہ Heredity کی وجہ سے زبان کے علاوه تمام خصوصیات بلوچ قومی خصوصیات، ان میں پائی جاتی ہیں، مگر آج بهی وه سندھ میں رہتے ہیں، سندهی زبان انکا زبان بن چکا ہے مگر نسلاً وه بلوچ ہیں اور وہاں کے لوگ ان کو بلوچ کے نام سے پکارتے ہیں کیونکہ زبان کی بولی سے قومیں تبدیل نہیں ہوسکتی ہیں۔
سبّی اور بلوچستان کے دوسرے علاقوں میں رہنے والے پشتون بهائی رہتے ہیں مگر اب وه پشتو زبان بهول چکے ہیں، سندهی اور بلوچی میں باتیں کرتے ہیں لیکن شکل اور صورت کے لحاظ سے سو فیصد پٹهان ہیں کیونکہ انکے اندر اپنی Genes موجود ہیں، وه قطعاً تبدیل نہیں ہوسکتی!
اسطرح بلوچ قوم جن زبانوں میں بات کرے، جدهر بهی زندگی بسر کرے، مگر نسلاً تو وه بلوچ ہے، شکل وصورت کے لحاظ سے انکے اندر بلوچی Genes کے اثرات موجود ہوتے ہیں، اگر زبان اور علاقائی حوالے سے کوئی بد بخت یہ کوشش کرے کہ بلوچ قوم کو دو قوم میں تقسیم کرتا ہو تو یہ انکی ناکام کوشش ہے، چاہے وه اس ناممکن عمل کو عملی جامعہ پہنانے کیلئے پہاڑوں کے مضبوط بدن کو چیر دیں، وه اپنے ان ناپاک عزائم میں کبهی کامیاب نہیں ہوسکتا، باپ اور بیٹے، بهائی اور بہن ماں اور اولاد جیسے خونی رشتوں کو خدا بهی الگ نہیں کرتا تو کچه بندوں کے بس کی بات نہیں اور وه کبهی اپنی اس احمقانہ سوچ میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔
ہم بلوچ ہیں، ہماری دو مادری زبانیں ہیں، بلوچی اور براہوئی ہماری شِیریں زبان ہیں، ہماری مرضی ہم ان دو زبانوں میں جس زبان کو استعمال کریں آپکا کیا؟ جب بهی ہماری دل کرتا ہے ہم “اِیلم” بهی کہتے ہیں، اور بات میں اور شیرینی شامل کرنا چاہیں تو “برات” بهی کہه کر لفظوں کو اور سجهد دیتے ہیں!
چاہے ایلم ہوں، چاہے برات ہوں، چاہے همبل ہوں، چاہے لُمّہ ہو یا مات” ان میں کوئی غرض نہیں! آپکا کیا؟ ہم جانیں ہماری زبان۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔