بلوچستان میں سرداروں کا کردار
سنگت بابل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
1839 کو جب انگريز سامراج نے بلوچ وطن پر قبضہ کرنےکی کوشش کی تمام سردار تقریباً انگريز کے حمایتی بن گئے، جب انگريز فوج نے قلات پر میجر ولشائر کی سربراہی میں حملہ کیا تو ساراوان میں سرداروں نے مستونگ کے مقام پر نہ صرف انگریز فوج کا خیر مقدم کیا بلکہ مدد بھی کی اور خود گھروں میں بیٹھ گئے اور خان محراب خان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنی وطن کی خاطر لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کی اور اس طرح 13نومبر 1839 کو بلوچ وطن کا مرکز انگریز کے ہاتھوں قبضہ ہوا۔
اس کے بعد انگريز نے شاہ نواز خان کو خان مقرر کیا تو ہی سردار انگريزی حکومت میں شامل ہوگئے۔ جب کہ سرداروں کو عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی۔
اسی طرح محراب خان شہید کے فرزند نصیر خان نے اپنے وطن کی آزادی کے جنگ کا اعلان کردیا تو عوام نے نصیر خان کی حمایت کی اس طرح جنگ شروع ہوئی اور اس جنگ میں آخر کار انگریز کو شکست ہوئی بلوچ فوج نے قلات پر حملہ کرکے انگريزی خان شاہ نواز کو گرفتار کرلیا تو نصیر خان نے انگريز سے لڑتے ہوئے ڈھاڈر، مستونگ، ۔ساراوان بھی واپس لے لیں۔ اور اس کے بعد شال پر بھی حملہ کرکے اسے آزاد کرانا چاہا تو ہی سردار بیچ میں آگئے اور خان کو حملہ کرنے سے روک کر معاہدہ کروایا اور اس طرح 1841 کو خان کی آزاد حیثیت باقی نہیں رہی۔ یکم جنوری 1876 کو ایک انگريز قافلہ سرداروں کو لے کر خان کے دربار میں قلات پہنچے اور دربار عام منعقد ہوا اس تاریخی اجتماع میں بلوچستان کے تقریباً تمام سردار موجود تھے اور سب رابرٹ سنڈیمن کی سربراہی میں آئے تھے جن کے نام یہ ہیں۔
سردار محمد خان رئیسانی، اللہ ڈنہ کرد، شادی خان بنگلزئی، محمد سید خان محمدشئی، جندہ خان شاہوانی، یار محمد خان کرد، مہراللہ ڈنہ، مہراللہ خان مری، میر ہزار خان مری، گل محمد خان مری، کرم خان بجارانی، نال خان لوہارانی، گہورخان بگٹی، ہیبت خان بگٹی، فتح خان، روگیر خان، بلوچ خان کیتھران، قادربخش، دین محمد بزدار اس کے علاوہ ڈیرہ غازی خان کے تمام سردار اور دوسرے سردار سنڈیمن کے سات تھے جبکہ دربار میں خان کو اپنے فرزند اور نوکر کے علاوہ صرف دو سردار، سردار نورالدین مینگل اور سردار قیصر خان موسیانی کی حمایت حاصل تھی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تمام سرداروں کی حمایت خان کے بجائے انگريز کے ساتھ تھی اور اسی طرح 13جولائی 1876 کو خان خداداد خان اور انگريز کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا اس معاہدے کی خاص شق یہ تھی کہ خان کی کنٹرول سرداروں پر سے ختم ہوگئی تھی۔ اب سرداروں کو یہ اختیار حاصل تھی کہ وہ کسی کو گرفتار کریں، قید کریں، سزا دیں، ٹیکس وصولی کریں، جو چاہتے تھے عوام کے ساتھ کرتے تھے۔ انہی سرداروں نے اپنے جرگے میں 1930 میں یوسف عزیز مگسی کو ایک فیصلے کے تحت ایک سال سزا اور پندرہ ہزار جرمانے کی سزا سنائی تھی، اس لیئے کہ اس نے ہفت روزہ (ہمدرد) لاہور میں 17نومبر 1929 کو ایک مضمون فریادِ بلوچستان کے نام سے لکھا تھا۔ انگریز جو بھی کرنا چاہتا وہ خود نہیں کرتا انہی سرداروں کے ذریعے کرواتا۔
جب خان خداداد خان قتل کی سازش سے بچتا ہے تو انگریز اسے گرفتار کرکے یہ کہتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے شہزاده محمود خان کے حق میں دستبردار ہوجائے۔ جب خداداد خان انکار کرتا ہے تو انگریز انہی سرداروں کو استعمال کرکے ان کے جرگے کے ذریعے خان کو خانی سے معزول کرکے اس کے بیٹے کو خان مقرر کرتے ہیں۔ یہ سردار اس خدمت کے عوض انگریز سے مراعات حاصل کرتے تھے۔ میں یہاں ان کی تفصیل بیان کرنے سے قاصر ہوں لیکن مجموعی تعداد کچھ یوں ہے۔
117 بلوچ سردار اور 61 پھٹان سردار تھے۔ جبکہ ان کے علاوہ 914 بلوچ اور 2168 پھٹان مَلک و معتبر تھے۔ اسی طرح ان تمام سرداروں اور مَلک و معتبروں کےلیے انگریز نے ماہانہ الاونسز مقرر کرکے ان سب کو اپنا تنخوادار نوکر بنا دیا۔ اب وہی سردار جو بلوچ معاشرے میں ایک بہادر، مصنف، اپنے قبیلے کا حمایت یافتہ فرد ہوا کرتا تھا۔ اب خارجی طاقتوں کا آلہ کار اور ظلم و جبر کی علامت بن گیا۔ اب وہ قبیلے کے بزرگ و قائد کے بجائے ان کا حاکم بن گیا اور انگریز اکثر انہیں آپس میں لڑا کر کمزور کرنے کی سازش کرتا رہتا۔
جب 1933 کو خان احمد یار خان قلات کے خان بنے تو انہوں نے کوشش کی کہ 1876 کے معاہدے کے تحت جو اختیارات تھے انہیں بحال کیا جائے اس لیے خان نے قلات نیشنل پارٹی کی سیاسی سرپرستی کرکے اس کی سیاسی جدوجہد اور حمایت کے ذریعے ریاست میں اپنے اثرات بڑی حد تک بحال کرلیئے لیکن اب بھی فیصلہ کن غلبہ انگریز کو حاصل تھی۔ اس وقت بھی اس جدوجہد میں قلات نیشنل پارٹی، انجمن بلوچاں، انجمن وطن، قومی سیاسی پارٹیاں تھیں تو سرداروں نے ان کی کوئی حمایت نہیں کی۔ جب کانگریس نے بلوچستان کے لیے آئینی اصطلاحات کا مطالبہ کیا تو انہی سرداروں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ قیام پاکستان کے وقت جب ان سرداروں نے انگریز کا جھکاؤ قائداعظم کی مسلم لیگ کی طرف واضح دیکھا تو ان سرداروں کی وابستگیاں از خود مسلم لیگ کے ساتھ ہوگئیں۔ تقسیم ہند کے بعد برٹش بلوچستان کو یہ حق دیا گیا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کریں یا پاکستان کے ساتھ تو سردار سوچ رہے تھے کہ دونوں میں سے کونسا مَلک انہیں مراعات دے سکے گا۔ بلوچستان پر پاکستانی قبضے کے وقت بھی تمام سرداروں کی تقریباً حمایت بلوچستان کی طرف نہیں تھی۔ قبضے کے بعد سرداروں کو اپنی مراعات کی فکر تھی۔ اب وہ زیادہ مراعات حاصل کرنے لگے اور اب وہ سیاسی میدان میں اترے اور ہر حکمران پارٹی میں اپنا جگہ بنانے کے تگ و دو میں سرگرداں رہے۔
جب 1955 کو بلوچستان کے دونوں حصوں کو برٹش بلوچستان اور ریاستی بلوچستان کو ون یونٹ کے تحت مغربی پاکستان کے صوبے میں شامل کیا گیا تو انہی سرداروں کی اکثریت نےاس کی حمایت کی۔ جب 1958 کو ایوب خان نے خان کو گرفتار کیا تو بلوچستان میں دوچار سرداروں کے علاوہ سب نے حمایت کی اور مراعات حاصل کیئے۔ جب ایوب خان نے سیاسی پارٹی بنائی تو تمام سرداروں نے اس میں شمولیت اختیار کی۔ ون یونٹ کے خلاف عوام جدوجہد کررہے تھے، تو سردار ون یونٹ کے خواہاں تھے 1970 کو ون یونٹ ٹوٹ گئی اور بلوچستان کو صوبے کا درجہ مل گیا۔
1970 کے عام انتخابات میں نیشنل عوامی پارٹی نے اکثریت حاصل کی اور جمعیت علماء اسلام مفتی کے ساتھ مل کر صوبےمیں حکومت بنائی۔ عطااللہ مینگل وزیراعلیٰ بن گئے تو بلوچستان اسمبلی نے سرداری نظام کے خاتمے کی سفارش کی تو بھٹو حکومت نےاس طرف کوئی توجہ نہیں دی بلکہ عطااللہ مینگل کی حکومت کو ہی ختم کردیا اور دوبارہ جام غلام قادر کو وزیراعلیٰ بنا کر حکومت بنائی تو تمام سردار جو مینگل حکومت کے حمایتی نہیں تھے، سارے سردار پیپلز پارٹی کے ہوگئے سوائے چند سرداروں کے اس دوران بھٹو نے بلوچستان میں فوجی کاروائی شروع کی اور ظلم و جبر کی انتہا کردی، عورتوں، بچوں، بزرگوں کا قتل عام کررہے تھے تو سردار تماشائی بنے بھٹو کی پیپلز پارٹی کے حمایتی تھے، سوائے چند کے جنہیں بھٹونے پہلے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا تھا اور کئی لوگوں کو لاپتہ بھی کیا جن میں خود عطااللہ مینگل کے فرزند اسد اللہ مینگل بھی ہیں جو آج تک لاپتہ ہیں۔
1955 کے بعد جب نواب نوروزخان نے اعلان جنگ کیا تو یہی سردار حکومت کے حمایتی بن گئے، جب ضیاء نےبھٹو حکومت کو ختم کرکے بھٹو کو گرفتار کیا تو یہی سردار ضیاء کے ساتھی بن گئے، سوائے چند کے یہاں تک کہ نواب مری، بگٹی، مینگل کو قوم پرستی کی راہ پر لانے والے غوث بخش بزنجو نے بھی باقی سرداروں کی راہ لی یہ کہہ کر کہ انتہا پسندی سے رجعت پسندی بہتر ہے۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات تھے، اس لیئے صوبائی ایوان غیر جماعتی تھا لیکن اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو نے غیر جماعتوں کو مسلم لیگی بنادیا تو سردار بھی فوراً مسلم لیگی بن گئے۔
1988 کے انتخابات میں بھی سردار حکومتی حمایتی تھے، 1990 میں بھی سردار حکومت کے ساتھ تھے اور وزیر تھے۔ 1993 میں صوبائی اسمبلی میں بھی سردار حکومت میں تھے۔ جب مشرف کے دور میں بلوچستان میں فوجی کاروائی شروع ہوئی تو خود مشرف نے اقرار کیا کہ سوائے 3 سرداروں کے تمام سردار فوج کے ساتھ ہیں اور اس طرح آج تک بلوچستان میں جو ظلم و جبر کا بازار گرم ہے تمام سردار یا حکومت میں ہیں یا حکومت کے حمایتی ہیں، یہی ہے سرداروں کی مختصر داستان اب آپ خود فیصلہ کریں کہ سردار بلوچ کے حمایتی ہیں یا دشمنِ بلوچ کے دراصل بات یہ ہے کہ یہ کسی کے نہیں ہیں۔ ہیں تو صرف پیسے کے دوست ہیں۔ انہیں کسی چیز سے کوئی سروکار نہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔