بلوچ رہنما بشیر زیب بلوچ نے سندھی قوم پرست لیڈر جی ایم سید صاحب کے 115 ویں سالگرہ کے موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھی اور بلوچ آج قومی حوالے سے زندگی و موت کی آخری کنارے پر کھڑے ہیں سندھی قوم اپنی عظیم لیڈر جی ایم سید صاحب کی قومی فکر و فلسفہ کو عملی طور پر اپنا کر سندھودیش قومی تحریک برائے آزادی کا حصہ بنیں جب تک سندھی بلوچ اور پشتون قوم ایک ساتھ ملکر پاکستان اور چین کے خلاف مشترکہ اور متفقہ طور پر منظم انداز میں مزاحمت نہیں کرینگے اس وقت تک سندھیوں بلوچوں اور پشتونوں کی قومی بقاء اور قومی شناخت کو انتہائی خطرات لاحق ہوگی۔
سندھ سرزمین ہزاروں سالوں سے یعنی اس وقت بابل اور یونان میں علم و شعور اور فلسفہ کی سورج طلوع ہورہا تھا تو سندھ کی زرخیز سرزمین بھی علم و فلسفہ کے حوالے سے کرہ ارض میں باقیوں کی طرح سندھ بھی اپنی مردم خیزی اور تخلیقی صلاحیتوں اور رجحانات کی بدولت پیش پیش تھا مگر افسوس وہی سرزمین سندھ کے باسی اس اکیسویں صدی یعنی علم و شعور اور ٹیکنالوجی کی صدی میں بھی ان کی اکثریت آج بھی پاکستان پرست سندھی قوم کی استحصالی پارٹی پیپپلزپارٹی و نام نہاد مذہبی پارٹیوں اور پیرو مرشد اور مزاروں کی طواف کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور اپنی غلامی کی زنجیروں میں مقید ہوکر پسماندگی اور جہالت کے اندھیرے میں اپنی تاریخی تہذیبی اور قومی بقاء کو کھو رہے ہیں۔گوکہ آج بھی سندھی قوم کے ایک طرف سورما اپنی مادروطن کی آزادی یعنی سندھودیش ریاست کی بحالی کے خاطر لڑتے ہوئے قربانی بھی دے رہے ہیں مگر زیادہ تر حصہ خواب غفلت میں یا پاکستانی پارٹیوں کی یرغمال میں اپنی حقیقی اور تاریخی کردار اور ذمہداریوں سے لاعلم ہوکر خوف اور لالچ میں مدہوش بے حس اور لاپرواہ نظر آرہے ہیں۔
بشیر زیب بلوچ نے کہ آج صرف اپنی عظیم قائد اور فلاسفر جی ایم سید کی یوم تاسیس کو جوش و خروش اور جذبہ سے منانا بالکل ایک مثبت اور انقلابی عمل ہے مگر اس 115 سالگرہ کے موقع پر سچے دل سے یہ عہد و پیمان کرنا اور عملاء سندھ کی قومی آزادی کی حصول کی خاطر مزاحمت کا حصہ بننا اور دشمن کے خلاف برسرپیکار ہوکر بھرپور مزاحمت کرنا وقت و حالات کی تقاضہ ہے تاکہ دھرتی ماں سندھ قومی غلامی کی چنگل سے آزاد ہوکر دنیا کے نقشے میں سندھودیش ریاست کی شکل میں نمودار ہو یہی جی ایم سید کی حقیقی فکر و فلسفہ تھا