براس قومی طاقت اور سرمایہ
تحریر: مراد بخش
دی بلوچستان پوسٹ
بقول سنگتوں کے مایوسی کفر ہے، جُہد آزادی وقت اور حالات کے حوالے سے کبھی سرد تو کبھی حرکت میں رہا ہے، پر رُکا نہیں ہے البتہ ۲۰۱۲ کے بعد کچھ بدلاؤ دیکھنے کو ملے، قومی شیڈول کمزور اور متاثر کن پیش رفت تھا، سیاسی قوم دوست سنگت اور خاص طور پر بلوچ قوم کا حوصلہ پُشت ہو چُکا تھا، جُہد کار سخت اور کھٹن حالات میں کمر بستہ محاذ پر ڈٹ کھڑے تھے۔ دشمن کی جانب سے ظلم اور بربریت شدت اختیار کر چُکا تھا، جنگ میں ایسے وقت اور حالات ضرور پیدا ہوتے ہیں، پر یہ حالات وقت سے پہلے قومی دعوے داروں نے مسلط کیئے تھے۔ قوم پرستی کا تیوری رٹا لگانے والے جو سوشل میڈیا کے سہارے زندہ تھے اور قومی تحریک کو نقصان سے دوچار کر رہے تھے، جس سے دوشمن ریاست کافی فائدہ اٹھا رہا تھا چلتے چلتے مایوسی قوم میں کافی حد تک پھیل چُکا تھا۔
یہی وجہ رہا کہ تنقید برائے تعمیر کے نام پر سیاسی دکانداری اور کریڈیٹ اسکورنگ، شوق لیڈری یا انا پرست بھی کہہ سکتے ہے یا پھر کوئی ٹاسک جس سے صرف دشمن فائدہ میں تھا، سیاسی اداروں اور مزاحمتی اداروں میں دوریاں پیدا کر رہی تھی۔
اس امر سے دشمن کے خلاف مزاحمت کم اور قوم کے خلاف نقصانات زیادہ پائے جاتے تھے، سیاسی سنگت، مزاحمتی مخلص سنگت، وقت اور حالات کی روخ سمجھ رہے تھے کہ قومی تحریک کو متاثر کرنے اور کمزور کرنے تقسیم در تقسیم کرنے میں ہماری صفوں میں رہ کر نقصان پہنچا رہے ہیں۔
حقیقی قوم دوست سنگتوں کا دور اندیشی، پختہ نظریہ اور تجربات ہی اس مشکل وقت میں قومی تحریک کو مکمل فعال کر کے ایک صف اور ایک سوچ پر گامزن کر سکتی تھی۔
قومی ایماندار، مخلص رہنماؤں نے اتحاد پر زور دیا جس سے بلوچ قوم میں حوصلہ افزائی کی لہر پیدا ہوئی، قومی شُہدا اور مخلص رہنماؤں کی قربانیوں سے مشترکہ قومی طاقت کو فوج کی شکل دینے میں ( براس ) کے نام سے کامیاب ہوئے، جس سے دشمن ریاست شکست خوردہ نفسیاتی بن چُکا ہے۔
براس قومی فوج، براس قومی جنون، براس قومی جذبہ، براس قومی اعتبار، براس قومی طاقت، براس قومی آزادی کی علامت ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔