بابر مجید سے مجید برگیڈ تک – برزکوہی

1028

بابر مجید سے مجید برگیڈ تک

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ 

سوزہ رنگ، دل میں گہرا درد رکھنے والا ہنس مکھ چہرہ، صبر و برداشت، بہادری اور استقامت رکھنے والا بابر عرف فرید آپ کس طرح اس کم عمری میں اپنی سنجیدگی، خلوص، خداداد صلاحیتوں، ایمانداری، بہادری، نیک نیتی اور ادراک کی وجہ سے کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔

واقعی کچھ لوگ آدمی سے بڑھ کر انسان ہوتے ہیں، مگر کچھ انسان سے بڑھ کر پتہ نہیں کیا ہوتے ہیں۔ ابھی تک وہ لفظ اور اصطلاح نہیں میرے پاس یا دنیا کے پاس کہ میں استعمال کروں۔ فرید انسان سے بڑھ کر پتہ نہیں کیا تھا، کہاں اور کس خمیر سے بنا تھا۔ فرید خود میں ایک فلسفہ، تحریک انقلاب اور ایک مکمل نظریہ تھا۔ شاید فرید کو سمجھنا آسان نہیں تھا لیکن کم از کم کچھ عرصے میں اگر میں کہوں میں فرید کو سمجھ گیا تھا، اور اسے بیان کرسکتا ہوں لیکن پھر بھی یہ اعتراف کرتا ہوں، فرید کو سمجھنا الگ بات مگر شاید بیان کرنا میرے بس کی آج بات نہیں کیونکہ آج میں جس کیفیت و عہد اور ماحول سے گزر رہا ہوں، جہاں کرب، درد، امید، غم و غصہ، فخر سب سے بڑھ کر فرید کی جسمانی غیر موجودگی صرف میرے لیئے ہی نہیں بلکہ سب کے لیئے محشر کے میدان سے کم نہیں، اگر کسی نے فرید کو دیکھا تھا اور صیح معنی میں سمجھا تھا۔

فدائی بابر نے ان علمی قضیوں کو رد کردیا تھا کہ علم و دانش اور ادراک وہ دولت ہے جو بڑھتے عمر کے ساتھ اکھٹی کی جاتی ہے، انہوں نے ثابت کردیا کہ کم سنی کبھی شعوری پختگی، بالیدگی اور ذہانت کے سامنے رکاوٹ نہیں بن سکتا۔

بقول ایک بااعتبار اور ذمہ دار دوست کے کہ فرید 2012 سے بی ایل اے میں شامل تھا اور 2015 سے باقاعدہ مجید برگیڈ کا حصہ بنا تھا اور وہ خود مسلسل دوستوں پر دباو ڈالتا تھا اور بار بار درخواست کرتا تھا کہ میرا مشن اور کام کب ہوگا، شاید دوست فرید کی باقی صلاحیتوں اپروچ اور سوچ کو مدنظر رکھ کر فرید کو ابھی تک اس کے آخری مشن پر جانے سے روک رہے تھے، اور کسی کماحقہ مشن پر ہی اسے بھیجنا چاہ رہے تھے۔

دوست کے بقول، فرید اپنے قابل اعتبار دوستوں سے اکثر کہتا تھا “یار مجید بریگیڈ کے سینئر کمانڈر 2015 سے لیکر ابھی تک مجھے میرے مشن پر روانہ نہیں کررہے ہیں، ایسا نہ ہو کہ کوئی پاکستانی دلال ایجنٹ آکر کہیں ہمیں مار نا دے، پھر میری یہ خواہش پورا نہ ہو کہ ایک تو دشمن کو اچھا سبق سکھانا ہے، دوسرا میرا سب سے بڑا خواہش کہ میرا شمار موت کے بعد ہمیشہ مجید بریگیڈ کے دوستوں میں ہو۔”

خیر دشمن کو جس طرح فرید کے کام، کرداروعمل اور محنت سے تکلیف تھا، وہ دشمن کو اچھی طرح اندازہ ہے اور دوسرا بی ایل اے سینئر کمانڈ کونسل اور آپریشنل کور کمیٹی کے دوستوں نے فرید کے ساتھ فرید کے کردار کے ساتھ انصاف کرکے فرید کو اعزازی طور پر مجید بریگیڈ کا دوست قرار دے دیا اور آج بابر مجید صرف بابر مجید کے طور پر یاد نہیں رکھا جاتا بلکہ مجید برگیڈ کے فدائی کے طور پر امر ہوگیا اور تا قیامت تک تاریخ میں بابر فدائی ہی یاد ہوگا۔

ابھی تک یقین نہیں ہورہا ہے کہ فرید بھی چلا گیا، ابھی تک یقین نہیں ہورہا ہے فرید کے میسج اور فون کال بند ہوگئے، ابھی تک یقین نہیں ہورہا ہے وہ ہنس مکھ چہرہ ابھی نظروں سے دور شہیدوں کے سجائے ہوئے محفل میں بیٹھ کر ہنستے ہوئے یہ ضرور فرما رہے ہونگے کہ ہم نے تحریک دوستوں کے حوالہ کردیا ہے، ہم نے تو اپنا قرض اور فرض پورا کیا۔

دوست کہتے ہیں کہ اگر فرید اپنے محبوب قائد جنرل اسلم بلوچ پر حملے کے وقت لپٹ کر جنرل کو بچانے کی کوشش نہیں کرتے تو فرید بچ سکتا تھا کیونکہ وہاں باقی کچھ دوست جو حملے کے سیدھے زد میں نہیں تھے بچ گئے تھے، مگر فرید ایک فدائی تھا اس نے جان کی پرواہ کیئے بغیر بھر پور کوشش کی کہ اپنے جنرل اور محبوب لیڈر کو بچائے، اس لیئے فرید موقع پر ہی شہید ہوگئے اور جنرل اسلم ہسپتال تک زندہ تھے اور پورے رستے یہ کہہ رہے تھے کہ یہ پنجابی ہمیں کچھ نہیں کرسکتا، میں زندہ تھا اور زندہ رہونگا، بس مجھے بتاو باقی دوست کیسے ہیں؟آخری سانسوں میں وہ فرید اور رحیم کا نام لیکر پوچھتے رہے کہ وہ کیسے ہیں؟

میرے خیال میں باقی بلوچ شہداء کے کردار کے ساتھ اگر فرید کے حقیقی کردار کو چھپانا دنیا اور قوم کے سامنے انصاف اور حقیقت کے بنیاد پر بیان اور ظاہر نہیں کرنا فرید اور فرید کے کردار کے ساتھ ناانصافی دغابازی اور غداری ہوگا۔

یہ بات بلکل حقیقت ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بلوچ قومی تحریک میں تمام شہیدوں کا بہتے ہوا لہو، خاص طور پر جنرل اسلم بلوچ اور دیگر فدائین سربازوں کی قربانیوں نے بلوچوں میں خاص کر بلوچ نوجوانوں میں معمولی یا غیر معمولی اگر موت کا خوف ذہن میں تھا، وہ اب ختم ہوچکا ہے۔ اگر آج کسی میں بھی خاص طور پر کسی جہدکار یعنی بلوچ جہد سے وابستہ جہدکار میں ذرا بھی موت کا خوف ہے تو پھر وہ اس تلخ حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے آپ کو بزدل لوگوں کی فہرست میں شمار کرے، پھر بہادر سمجھنا اور بہادری کا دعویٰ کرنا، بہادر انسانوں کی توہین ہوگی۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں ۔