بابر مجید میرے بچپن کا یار
بال بُدھ سنگی
دی بلوچستان پوسٹ
بابر جان، کیا تم نے کبھی سوچا تھا کہ ہم میں سے ایک، دوسرے کی موت پر، ہمارے بچپن کی یادوں کو تازہ کرنے کے لیئے لکھ رہا ہوگا؟ اور اگر سوچا تھا تو یہ بھی ضرور سوچا ہوگا کہ یہ ہمارے لیئے کتنا مشکل کام ہوگا۔ مجھے صرف یہاں تک لکھنے کے لیئے دسیوں بار بہتے آنسو پونچنے پڑرہے ہیں، اور سسکی ہے کہ سینے میں ڈیرہ جمائے بیٹھی ہے، تمہارے ساتھ بِتائے ان گنت لمحوں میں سے اب بس چند ایک کے نقش ذہن میں سلامت ہیں اور جب سب تمھارے دلیری کی بات کر رہے ہیں، تمھارے نظریاتی بختگی کی بات کر رہے ہیں، میں تمھارے معصوم بچپن کی بات کرنا چاہتا ہوں، جو چند سال ہم ایک ساتھ رہے ، کھیلے اور بچھڑ گئے وہ بتانا چاہتا ہوں۔
ہمارے بچپن کی دوستی اسکول کے اندر اور باہر بھی تھی، ایک دوسرے کے گھر بھی آتے جاتے تھے، اور تمھارے گھر جانے کی سب سے بڑی وجہ وہاں تمہارے کمپیوٹر پر “آئی جی آئی” گیم کھیلنا ہوتا تھا، میری یادوں میں اب بھی وہ لمحہ تروتازہ ہے کہ تمھارے گھر کے گہرے سرخ دروازے سے کس طرح خاموشی سے داخل ہوئے اورکمرے کے اندر قدم رکھا تو سامنے ذاکر جان لیٹا ہوا تھا، ہم نے ہاتھ ملایا اور انھیں اندازہ ہوگیا کہ بچوں کا یہ رش کس وجہ سے ہے، وہ بس مسکرا کر کمپیوٹر اسٹارٹ کرکے دے دیتا۔ ہم میں سے گیم کھیلنے کا ماہر بھی تم تھے، فوراً گیم شروع کرکے ہمیں دکھانے لگ جاتے کہ کس طرح “آئی جی آئی” کھیلا جاتا ہے اور دشمن پر کیسے گھات لگا کر حملہ کرتے ہوئے مرحلے پار کیئے جاتے ہیں۔
تم سے جڑی یادوں کے دھندلکوں میں جاتا ہوں تو مجھے اسکول میں ‘برف پانی’ کھیلنے کے وہ دن یاد آجاتے ہیں، یہ ہمارا شوقیا کھیل ہوتا تھا، جب بھی کلاسوں کے بعد وقفہ ملتا تو ہم دو ٹیم بنا لیتے، ایک ٹیم بھاگتا اور دوسرا پکڑنے کی کوشش کرتا، جب کسی کو پکڑ لیتے تو وہ ‘برف’ بن جاتا اور اسکا کوئی ساتھی آکر اسے چھوتا تو وہ ‘پانی’ بن جاتا، اور دوبارہ کھیل میں شامل ہو جاتا، ہمارے ٹیم کا پُھرتیلا کھلاڑی بابر جان تم ہوا کرتے تھے اور مخالف ٹیم کا پہرے دار، جو ایک فربہ سا ہندو لڑکا ہوتا تھا اسے چکما دے کر ساتھیوں کو چھڑا کر تم لے آتے تھے۔
پھر تم، اپنے بچپن کے اسکول کو چھوڑ کر بلوچستان ریذیڈینشل کالج چلے گئے، تب نہ تمھارے پاس موبائل تھا نا میرے پاس، ہمارے بچپن کے دنوں میں موبائل فون اتنے عام نہیں تھے، دوستوں کے ساتھ تعلق قائم رکھنا قدرے مشکل کام تھا۔ امید ہے تمھیں بھی اس مشکل کا اندازہ رہا ہوگا۔ دو سال کے بعد تمھارے نام کا ذکر ہوا، مگر ایک بری خبر کے ساتھ کہ ذاکر جان اغوا ہوچکا تھا، دوست بتا رہے تھے، “سنا تم نے؟ بابر کا بڑا بھائی اغواء ہوا ہے، ذاکر مجید”۔
اسکے بعد پھر چند سال ایک چپ چھا گئی، مگر جن جن دوستوں نے بی آر سی میں تمھیں دیکھ رکھا تھا، ان سے اکثر پوچھ لیتا کہ کیسا تھا بابر، تو کہتے کہ وہ تو بڑا کامریڈ بن گیا ہے، بلوچستان کے جھنڈے کا بیج لگا کر گھومتا ہے۔
مگر 2012 کے بعد تمھارے بارے میں احوال ملنا بھی بند ہو گئے، مفروضے ہی تھے شاید سب، کوئی کہتا کہ تم دبئی چلے گئے ہو، کوئی کہتا نہیں تم کراچی میں ایک یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہو، مگر حقیقت تو یہ تھی تم نے اپنے مقصد کا انتخاب کرلیا تھا، تم لفاظی کامریڈ نہیں تھے، تم حقیقی سپاہیوں کے کامریڈ تھے، تم کہیں اور نہیں تھے تم وطن مادر کی گود میں تھے، اور ماں کے ننگ و ناموس کے دفاع میں سینہ تان کر کھڑے تھے۔
بابر جان،25 دسمبر کی صبح، میں بیمار تھا، رات جلدی سو گیا تھا اور صبح اٹھ کر جب میسج پڑھنے لگا تو ایک دوست نے خبر بھیجا تھا جہاں استاد کی شہادت کی خبر تھی، میری زندگی میں اتنی بدترین صبح کبھی نہ آئی تھی، مگر میرا اندازہ غلط نکلنے والا تھا۔
چند روز بعد ایک اور خبر نظروں سے گذرا، اس بار شہدا کے نام مختلف تھے، فرید، بابرمجید بن چکا تھا اور صادق، امان اللہ بن چکا تھا اور میری روح میں آگ لگ چکی تھی، اندر ہی اندر چیخ رہا تھا۔۔ میرا یار اب نہیں رہا، بابر اب نہیں رہا۔ وہ بھورے بالوں والا شہزادہ، وہ سوزہ رنگ، وہ مروارد کی سفیدی لیئے ہنسی، وہ تیکھی نظر والا نٹ کھٹ لڑکا، وہ جو ہمیشہ بچ بچا کے مجھے برف سے پانی کرتا اور ایک نئی زندگی دیتا، آج اسکا اپنا جسم ٹھنڈا پڑ گیا ہے، اسے کون گرمائے گا، اسکی زندگی کون لوٹائے گا، مجھے دوڑنے دو، مجھے اسے چھونے دو، پہرے دار میرے راستے مت آو، مجھے اپنے دوست کو پھر سے لانا ہے، وہ ابھی تک تھکا نہیں، اسے برف سے پانی کرنا ہے، اس کے ساتھ کھیلنا ہے! مجھے جانے دو، بابر کے ساتھ گزگی کی گلیوں میں پھرنا ہے! ذاکر جان، کمپیوٹر اسٹارٹ کرکے دو، بابر کو پھر سے گیم کھیلتے ہوئے دیکھنا ہے۔۔۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہے۔