انسانیت کے لئے دہرا معیار کیوں
تحریر: لطیف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
19 جنوری کو پنجاب کے شہر ساہیوال میں ریاستی دہشت گردی کا ایک بدترین واقعہ رونما ہوا، انسان کی کھال میں چھپے حیوانوں نے تین معصوم بچوں کے سامنے اُن کے والد، والدہ، بہن اور ایک رشتہ دار کو گولیوں سے بھون کر پہلے بچوں کو اپنے ساتھ لے گئے، پھر دوبارہ واقعہ کے مقام پر لاکر چھوڑ دیا اور پولیس نے حسب روایت ایک پریس ریلیز جاری کیا کہ جن لوگوں کو موت کی گھاٹ اُتارا گیا ہے وہ انتہائی مطلوب اور خطرناک دہشت گرد تھے۔ جنکا تعلق مذہبی شدت پسند گروہ داعش سے تھا۔ وہ خواتین اور بچوں کو ڈھال بناکر فرار ہونے کی کوشش کررہے تھے لیکن بروقت کاروائی کرکے انہیں مقابلے میں مار دیا گیا لیکن بچوں کی ابتدائی بیان اور سوشل میڈیا پر چلنے والی فوٹیج اس ریاستی بیانیہ کے برعکس کہانی بیان کررہے ہیں۔
انتہائی تربیت یافتہ خطرناک دہشت گردوں کے ہاتھوں میں کوئی اسلحہ وغیرہ نہیں ہے بلکہ وہ سیٹ بیلٹ باندھے ہوئے ہیں، اُنکی ویڈیو اور تصاویر ریاستی اداروں کے ریاستی بیانیہ کے مکمل نفی کررہے ہیں، یہ واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا انوکھا اور سنگین واقعہ نہیں، اس سے قبل اس واقعے سے بھی انتہائی سنگین، وحشت ناک اور دردناک واقعات بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخواہ میں رونما ہوئے ہیں لیکن اس واقعے کے بعد جس طرح میڈیا حرکت میں آئی اور الیکڑانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر جو طوفان برپا ہوا، جس انداز سے اس واقعے کے خلاف پنجاب کے دانشوروں، صحافیوں اور سیاستدانوں نے ردعمل کا اظہار کیا اس سے دیگر مظلوم، مجبور و مقہور اقوام و انسان سوچنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ اُن کا پاکستان میں حیثیت کیا ہے اور اس ساہیوال واقعے نے ریاست اور قوموں کے رشتے کا تعین کرنے میں آسانی پیدا کرچکی ہے۔
بلوچ تو شروع دن سے کہتے چلے آرہے ہیں کہ پاکستان میں اُنکی حیثیت تیسرے درجے کے شہری، غلام اور مقبوضہ کی ہے اور وہ اپنے رضا و مرضی سے پاکستان میں شامل نہیں ہوئے ہیں بلکہ انہیں بزور طاقت جبری طور پر اس ملک میں شامل کیا گیا ہے، بہ الفاظ دیگر اُن پر قبضہ ہوا ہے لیکن جو دیگر اقوام اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ اس ملک میں برابری کی بنیاد پر رہ سکتے ہیں اور حقوق حاصل کرسکتے ہیں، انہیں اب اپنے اس خوش فہمی سے نکلنا چاہیئے اور اپنی سوچ میں تبدیلی لاکر فیصلے پر نظرثانی کرنا چاہیئے۔
ایسے دلخراش واقعات ہر روز بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں رونما ہوتے ہیں، روز بچوں سے اُنکے والدین اور والدین سے اُنکے بچے چھین لیئے جاتے ہیں، گھروں کو جلانا، خواتین کو بے آبرو کرنا، تشدد روز مرہ کا معمول بن چکا ہے، کراچی میں ایک پشتون نوجوان نقیب محسود کو ایک جعلی مقابلے میں قتل کردیا گیا، میڈیا مقتول کو دہشت گرد اور قاتل کو ہیرو بناکر پیش کرتا رہا۔ قاتل کے بہادری کی قیصدے سنُائے گئے لیکن مقتول پشتون نوجوان کو انصاف نہیں ملا، اُس کا قاتل آج بھی آزاد گھوم رہا ہے۔
ایک اور تازہ واقعہ میر علی، خیسور میں پیش آیا، ایک معصوم پشتون بچے کا ایک ویڈیو وائرل ہوا ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ اگر میرے باپ اور بھائی کو رہا نہیں کرتے نہیں کرو لیکن ہماری عزتوں سے کھلواڑ بند کرو، وہ کہتا ہے کہ ملک کی رکھوالے ہر روز ہمارے گھر آکر کہتے ہیں کہ ہمارے لئے بستر کا اہتمام کرو، بچے کے مطابق اُنکے گھر میں اُنکی ماں اور بہن ہے، ایسے واقعات بلوچستان میں بھی رپورٹ ہوئے ہیں، فوجی اہلکار خواتین کو اُٹھا کر لے گئے ہیں کیمپوں میں اُنکی عزتوں کو تار تار کیا گیا ہے۔
گذشتہ روز کراچی میں سندھی نوجوان کے گرفتاری کی دوران اُن کی ماں اور بہنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، فاش گالیوں سے نوازا گیا، جس نوجوان کو اُٹھانے آئے تھے، اُن کا والد کئی سالوں سے لاپتہ ہیں لیکن خوف اور جبر کا ماحول ہے ایک لوگ خوف سے آواز نہیں اُٹھاتے اور دوسرا وہ مزید اپنی عزتوں کو اچھالنا نہیں چاہتے اور خاموشی اختیار کرتے ہیں، اور اُنکی خاموشی سے یہ عزتوں کے لٹیرے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ لیکن پاکستانی میڈیا، عدلیہ، سول سوسائٹی، سیاستدانوں اور دانشوروں کی نہ انسانیت اور نہ ہی ضمیر اس طرح جاگا ہے جس طرح ساہیوال واقعے پر اُنکی ضمیر اور انسانیت جاگی، ریاستی دہشت گردی کا اس سے بدترین واقعہ کوئٹہ میں بلیلی چیک پوسٹ پر پیش آئی جب ایک چیچن حاملہ خواتین کو رشوت نہ دینے پر گولیوں سے بھون دیا گیا لیکن پاکستانی میڈیا نے ان خواتین کو دہشت گرد قرار دے کر قاتلوں کو خوب دادِ تحسین پیش کرتی رہی، ایک مقامی صحافی نے اس واقعے اصل حقائق کو سامنے لایا، اُس کو جان کی لالے پڑ گئے لیکن کسی صحافتی تنظیم نے اُسے مدد و تحفظ فراہم نہیں کی۔
بلوچستان کے علاقے توتک سے اجتماعی قبر سے 169 لاشیں برآمد ہوئیں، کوئٹہ میں گزشتہ دنوں 10 انسانی لاشوں کو لاوارث قرار دے کر دفنایا گیا لیکن میڈیا ملکی سلامتی کا کمبل اوڑھ کر سوتی رہی، ہزاروں گمشدہ بلوچوں کے ماوں اور بہنوں کی چیخ و پکار، آہ و بکار اور مسخ شدہ لاشوں کی انبار اُنکی نیند میں خلل نہیں ڈال سکی کیونکہ بلوچوں، سندھیوں، پشتونوں، سمیت دیگر مظلوم اقوام کو وہ انسان ہی نہیں سمجھتے، مہذب ملکوں میں جانوروں کو بھی اذیت دینا معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن یہاں انسانوں کی قتل کو ملکی مفادات اور سلامتی کے لئے ضروری سمجھا جاتا ہے۔
ہم انسانیت کے لئے دہرا معیار نہیں رکھتے، اپنے ساتھ ہونے والی مظالم کے باوجود ہم ظلم کیخلاف بول رہے ہیں کیونکہ ہم انسان ہیں، ہمیں ہماری انسانیت یہ درس دیتی ہے کہ مظلوم پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلا رنگ، نسل، فرقے اور قومیت کے اُٹھاو، ہم اپنے اوپر ڈھائے گئے مظالم پر پنجابی قوم کی اجتماعی خاموشی کی باوجود ساہیوال واقعے کو ایک بدترین واقعہ اور انسانیت کا قتل تصور کرتے ہیں، جس ریاستی دہشت گردی پر من الحیث القوم پنجابیوں نے خاموشی اختیار کیا تھا آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے۔
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے ۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔