افغان طالبان نے کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ اُن کا رابطہ بحال ہے، جس میں وہ مذاکرات کر رہے ہیں آیا افغانستان میں ”لڑائی اور غیرقانونی قبضے” کا کس طرح خاتمہ لایا جا سکتا ہے۔ اُنھوں نے ایک بار پھر کابل میں حکومت کے ساتھ کسی براہِ راست بات چیت کے امکان کو مسترد کیا ہے۔
طالبان کے ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ امریکہ کے ساتھ گفتگو کا ایک نیا دور ہونے والا ہے۔ لیکن، اس کی تاریخ اور مقام کا تعین ابھی نہیں ہوا۔
اُنھوں نے اِن رپورٹوں کو جھوٹے دعوے قرار دے کر مسترد کیا کہ اس ماہ کے اواخر میں باغی گروپ کے مذاکرات کار سعودی عرب میں افغان اہلکاروں کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر تیار ہیں۔
افغان مفاہمت سے متعلق امریکہ کے نمائندہ خصوصی، زلمے خلیل زاد نے دسمبر کے وسط میں ابو ظہبی میں دو روز تک طالبان کے ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ تفصیلی مذاکرات کیے جہاں سعودی عرب، پاکستان کے علاوہ میزبان ملک کے ایلچی بھی شریک ہوئے۔
حکومت پاکستان نے متحدہ عرب امارات میں اس ملاقات کا اہتمام کرنے کا سہرہ اپنے نام کیا ہے، جس سے قبل خلیل زاد نے قطر میں موجود طالبان نمائندوں کے ساتھ ابتدائی رابطے کیے تھے۔
مجاہد نے کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ مکالمے کے عمل میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئی، چونکہ افغانستان میں قبضے کا خاتمہ اب اُن (امریکہ) کی مجبوری ہے۔
اُنھوں نے زور دے کر کہا کہ اگر بات چیت میں متوقع نتائج حاصل کرنے میں ناکامی ہوتی ہے اور طالبان کے ساتھ لڑائی جاری رہتی ہے، تو ”امریکیوں کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہوگا، ماسوائے اس کے کہ اُنھیں افغانستان سےنکالا جائے”۔
تاہم، امریکیوں کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے کے نتائج کے بارے میں، طالبان کی جانب سے سماجی میڈیا پر جاری کردہ ایک اور بیان میں مجاہد خوش نظر آتے ہیں۔
طالبان ترجمان نے کہا کہ ہم یقین کے ساتھ یہ بات کہتے ہیں کہ درحقیقت یہ موئثر ثابت نہیں ہوئے۔ اُس سے یہ امید پیدا ہوتی ہے کہ اگر اس رفتار سے مذاکرات جاری رہتے ہیں تو عین ممکن ہے کہ غیر ملکی جارحیت کا خاتمہ ہو سکے گا، جس کے نتیجے میں امن قائم ہوگا۔