اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے صدر کی آمد
پیادہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے صدر ماریا فرنانڈہ اسپونزا کی آمد پر ریاست کیلئے زمین تنگ ہوچکا ہے، کہتے ہیں کہ گرتے دیوار کو ایک اور دھکا۔ اس ریاست کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے، منافقت کی گھونگٹ ہٹاتے ہوئے کچھ بلوچ فرزندوں کو منظر عام پر تو لایا مگر باقی چالیس ہزار سے زائد بلوچ اسیران کو بھی چھپا یانہیں جاسکتا۔
انسہ بہن کی آنسوؤں کی سمندر نے ایسا بھنور پیدا کیا کہ ان کی ہمت و حوصلہ نے ریاست کے تمام چالوں کو مات دیدی۔ ریاست نے اس بھوک ہڑتالی کیمپ کو ختم کرنے کے بے دریغ سازشیں کیں، چاہے وہ لانگ مارچ میں مختلف مقامات پر اپنے کرائے کے غنڈوں کی صورت میں رکاوٹ پیدا کرنا ہو یا شہیدوں کے پاک مزاروں کی بے حرمتی کی صورت میں ہو یا چند ہفتے قبل اپنے پارلیمنٹ ہاوس کے چند نام نہاد مہروں کی شکل میں، جو مگرمچھ کے آنسو لیکر چھ نکات کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے ماما قدیر کے پاس آکر یہ بولے کہ اس سلسلے کو یہی ختم کردیں۔ اور اپنے گھر چلے جائیں، ہم پارلمنٹ میں آواز آٹھائینگے، لیکن افسوس یہ آواز چاغی کے پہاڑوں کو بھسم کرنے کا سبب بنا لیکن بلوچ قوم کی بقاء کا آواز نہیں بنا اور آج کیا یہ آواز خاک اٹھائینگے۔
ماما قدیر سمیت تمام لواحقین نے ان کے یہ تمام حربے ناکام بنادیئے۔ ایسے اور بھی کئی ہزار آہ و سسکیاں گونجتی، سنائی دے رہی ہیں، جو ریاست کے خاتمے کیلئے سونامی کی شکل اختیار کرسکتے ہیں۔
آج دشمن کے بہت سے تھالی چاٹنے والے، اپنی دلاری برقرار رکھنے کی خاطر بے شمار کوششیں کرہی ہیں کہ ماما قدیر سمیت لاپتہ افراد کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں شریک دیگر لواحقین کیمپ کچھ دن کیلیے بند کردیں۔ تاکہ ان کا یہ ظالمانہ رویہ (جس سے زمین و آسمان لرز اٹھتی ہے اور انسانیت کانپتی ہے ) کہیں دنیا کے سامنے اجاگر نہ ہو اور یہ سلسلہ دنیا کے ہر کونے تک ناپاک ریاست کے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہو۔
مگر یہ ریاست کی بھول ہے کہ ماما قدیر اور لاپتہ افراد کے لواحقین، اسلام آباد تک لانگ مارچ کرکے نہیں تھکے، تین ہزار سے زیادہ دنوں تک ریاست ان کے حوصلے پست نہیں کرسکا اور ماما قدیر اب اس سلسلے میں اقوام متحدہ تک اپنی اواز پہنچانے میں کامیاب ہوسکتا ہے، وہ ان پانچ دنوں میں کیسے خاموش رہ سکیں گے۔
آج ہمارے تمام ان متاثرہ لواحقین کو چاہیئے کہ وہ ان ایام کو اپنے لئے بہت اہم سمجھکر بھوک ہڑتالی کیمپ میں کثیر تعداد میں اپنی شرکت کو یقینی بنائیں تاکہ اس ناپاک ریاست کا بھیانک چہرہ دنیا کے سامنے آسکے۔ ورنہ وہ اپنے اس قیمتی وقت کا خمیازہ ماضی کی طرح سڑکوں پر اور بوری بند لاشوں کے پھینکنے کی صورت میں بھگتیں گے اور بعد میں افسوس کے علاوہ کچھ نہیں کیا جاسکے گا۔ کیونکہ جو قومیں جتنی دیر سے جاگتے ہیں، انہیں اتنی ہی زیادہ قربانیاں دینا پڑتا ہے۔
یہی وقت ہے دشمن کے منہ پر تمانچے مارنے کا اور مقبوضہ بلوچستان کو آجوئی کی سمت لے جانیکا، یہی وقت ہمارے شہیدوں کے قربانیوں کو کارآمد ثابت کرنے کی اہمیت کا حامل بن سکتا ہے اور ایسے موقع بار بار نہیں آتے، پھر وہی سلسلہ شروع ہوگا، پھر مکار آئی ایس آئی دنیا کا ون نمبر ظالم و جابر بنکر ہم پر انسانیت سوز ستم ڈھائے گا اور بلوچ قوم، سندھی قوم اور پشتونوں کی شناخت اور قومی تشخص کو مٹانے میں کامیاب ہوجائیگا اور پھر ہم سب کو غلامی کی جانب دھکیلنے میں پنجابی ریاست کامیاب ہوجائے گا اور اس وقت شاید ہماری آنے والی نسلیں بھی اس دلدل سے نہ نکل سکیں گی۔
ایسے صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہم سب کو متحد ہوکر اس ریاست کو شکست سے دو چار کرنے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیئے ہمیں اپنے احتجاج میں وہ جذبہ اور شدت پیدا کرنا چاہیئے جس سے یہ نا پاک ریاست ہمیشہ کیلئے نیست و نابود ہوجائے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔