اقوام متحدہ بلوچ  پناہ گزینوں کو مہاجروں کے عالمی حقوق کے مطابق سہولتیں فراہم کرے – بی این ایم

272

بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر مراد بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بلوچستا ن میں پاکستان کی جارحیت سے لاکھوں کی تعداد میں بلوچ اپنے وطن اور وطن سے باہر ہجرت پر مجبور ہوچکے ہیں۔ بلوچ پناہ گزین نا گفتہ بہ حالت اور انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی تعداد افغانستان میں ہے جو گزشتہ اٹھارہ سالوں سے جاری پاکستانی جارحیت کے نتیجے میں ہجرت کرکے افغانستان چلے گئے ہیں۔ ابھی تک وہاں عالمی اداروں کی مدد و اعانت سے محروم ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے ادارے یو این ایچ سی آر (یونائینڈ نیشنز ہائی کمیشن فار ہیومین رائیٹس) سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں انسانی بحران کو مد نظر رکھ کر بلوچ  پناہ گزینوں کو قانونی حیثیت دے کر انہیں مہاجروں کے عالمی حقوق کے مطابق سہولتیں فراہم کرے۔ افغانستان کے علاوہ دنیا کے کسی بھی ملک میں بلوچوں کو پناہ گزین کی حیثیت دینا مہذب دنیا اور اقوام متحدہ کے اداروں کی ذمہ داری ہے۔

ڈاکٹر مراد بلوچ نے کہا کہ جس طرح شامی بحران کے بعد جرمنی اور دیگر یورپی ممالک نے شامی پناہ گزینوں کو خوش آمدید کہا اور انہیں انسانیت کی بنیاد پر اپنی سرزمین پر پناہ د ے دی، افغانستان میں یو این ایچ سی آر کے دفتر سے بلوچوں کو اسی طرح کی توقعات وابستہ ہیں کیونکہ بلوچستان میں انسانی بحران کسی بھی بحران سے بدتر ہے۔ اس کی وجہ اور دوسرے ممالک سے فرق یہ ہے کہ یہاں (بلوچستان) براہ راست قابض ریاست بلوچوں پر مظالم ڈھا رہا ہے۔ پاکستانی فوج سول آبادیوں کو روزانہ کی بنیادپر اپنی بربریت کا نشانہ بنارہاہے۔ جبکہ دوسرے ممالک میں بحران میں نان اسٹیٹ ایکٹرز ملوث ہیں۔ بلوچوں کے علاوہ دنیا کے دیگر پناہ گزین زیادہ تر القاعدہ، داعش اور بوکو حرام جیسی دہشت گرد تنظیموں سے جان بچانے کے لئے اپنے اپنے ملک سے نکل کر وہاں جارہے ہیں جہاں وہ محفوظ زندگی گزار سکیں اورجہاں ان دہشت گرد تنظیموں کا اثر نہ ہو لیکن بلوچستان میں قابض ریاستی فوج نے اپنی بربریت سے بلوچ قوم کے لئے اپنی ہی سرزمین پر زندگی تنگ کردی ہے ۔ یوں ملک کے کسی دوسرے کونے میں بھی بلوچ محفوظ نہیں۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ بلوچستان میں انسانی بحران کا ایک بڑا پہلو پاکستان اورپاکستان کے سامراجی اتحادی چین کے استحصالی منصوبے ہیں ۔ چین اور پاکستان کے درمیان چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) منصوبے کی معاہدہ کے بعد بلوچستان میں جاری فوجی آپریشن اور بمباری میں نہایت تیزی لائی گئی جہاں کئی دیہات صفحہ ہستی سے مٹائے گئے۔ سی پیک منصوبہ کی روٹ پر آنے والی آبادیوں پر زمینی اور فضائی آپریشن کے ذریعے طوفان برپا کی گئی اور انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ علاقہ خالی کریں۔ آج تقریبا ایک ملین بلوچ بے گھر ہوکر مختلف علاقوں اور مختلف ممالک میں انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔پورے بلوچستان بالخصوص سی پیک روٹ کے گرد و نواح کے آبادیوں کو نشانے بنانہ کا ایک مقصد ہی یہی ہے کہ بلوچ اپنی سرزمین سے انخلا کریں اور پاکستان اور چین کے لئے بلوچ سرزمین پر قدم جمانے اور وسائل کی لوٹ مار کے لئے راستے مزید ہموار ہوجائیں۔ ایسے میں اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں اور انسانی حقوق کے تنظیموں کا فرض بنتا ہے کہ بلوچ پناہ گزینوں کے لئے خصوصی انتظامات کرکے ان کی حفاظت کی ذمہ داری لیں۔

ڈاکٹر مراد بلوچ نے کہا کہ افغانستان میں بلوچ پناہ گزینوں پر کئی حملے بھی کئے گئے ہیں جن میں کئی بلوچ شہید اور کئی زخمی ہوئے ہیں۔ آج نمروز اور قندھار میں بلوچ پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد اقوام متحدہ کی جانب سے امداد، پناہ اور تحفظ کا منتظر ہے۔