استاد، ایک سوچ کا نام ۔ گزین بلوچ

599

استاد، ایک سوچ کا نام

تحریر۔ گزین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

جس قوم پر کسی ریاست کا قبضہ ہو، اس قوم کے ہر مرد، عورت اور بچے تک کو بھی اپنی آواز دنیا تک پہنچانا ہوتا ہے، آپ کو دنیا کو بتانا ہوگا کہ آپ پر ظلم ہورہا ہے، ہر طالب علم پر فرض ہے کہ وہ اپنی آواز کو سختی سے دنیا تک پہنچائے۔

لازم نہیں کہ خالی بندوق سے اپنے آزادی کی جنگ کو آگے لے جائیں بلکہ اس ظالم ریاست کو توڑنے کیلئے ہمیں قلم جیسے ہتھیار استعمال کرنے ہونگے، قلم کے ذریعے ہم دشمن کو توڑ سکتے ہیں، قلم کے ذریعے ہم اپنے منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔ سب بلوچ سٹوڈنٹس پر فرض ہے کہ وہ اپنے وطن کی آزادی کیلئے اپنی آواز کو دنیا تک پہنچائیں. جیسا کہ دنیا کے دوسری تحریکوں سے جڑی طالب علموں کی مثالیں ہمیں ملتی ہیں، انہوں نے قومی زبان، ثقافت، کلچر، رسم رواج سب کیلئے اپنا لہو بہایا اور آزاد خودمختیار ہوئے، اسی طرح بلوچ بھی آہستہ آہستہ دنیا کے سامنے آنے لگے ہیں۔

اگر ہمیں جنرل اسلم جیسے استاد بنائیں، تو ہم کو اسلم کی راہ پہ چلنا ہوگا، ہمیں بھی اپنے اولاد کو قوم کی خاطر قربان کرنے کیلئے کوئی کثر چھوڑنی نہیں چاہیئے، کیونکہ آزادی خون بہانے سے ملتا ہے۔ آج استاد نے ہمیں سکھایا اگر ہم اس کے راہ پہ نہیں چلے گے، تو ہم اس کے گناہ گار ثابت ہونگے کیونکہ اس نے جو قربانی دی ہے، قوم کو آزاد کرنے کیلئے، ہمارا اور تمہارا فرض بنتاہے کہ اپنے قوم کو جگائیں۔

استاد وہ ہستی تھا، جو بلوچ قوم کیلئے حقیقی بیٹے تھا، جس نے بلوچ قوم کیلئے بے حساب قربانیاں دیں تھیں اور قربانیاں دینے کیلئے بھی اپنی زندگی میں تیار تھا. استاد نے جاتے جاتے بلوچ قوم کو یہ احساس دیا کہ بلوچ کسی قوم سے پیچھے نہیں اور کسی بھی حکومت کو یہ اجازت نہیں کہ وہ ہمارے مظلوم قوم کو کچل کر اپنا طاقت بنائے کیونکہ استاد اس نظریئے کا مالک تھا جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے، ہمیں فخر ہے ایسے لیڈر پر جو اپنی زندگی میں سارے دُکھ اور مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ صرف اور صرف اپنے قوم کی خاطر استاد نے اپنی ساری زندگی بلوچ قوم کیلئے قُربان کردیا۔ یہ ہمیں اور دُنیا کو بھی پتا ہے، بھلے ہی پاکستان کا منصوبہ کامیاب ہوا استاد امر ہوگیا لیکن پاکستان اور پاکستان کے ایجنسی جو اپنے دل اور دماغ میں سوچ رہے ہیں کہ استاد ختم ہوگیا، وہ اپنے دل اور دماغ سے نکال لیں کیوںکہ استاد ایک ایسا چراغ ہے، جنہوں نے بُجھتے ہوئے چراغوں کو روشن کیا ہے۔

یاد رہے بالاچ بھی ایک ایسا لیڈر تھا جو ایک حملے میں امر ہوگیا لیکن اس کے بعد آپ کو پتہ ہے کہ کس مرد نے بی ایل اے کی سربراہی کی تھی اور ہمارے اس جنگ کو اس مقام تک لایا۔ وہ آج ہمارے درمیان نہیں رہا لیکن اس کی سوچ اور نظریئے نے بلوچ قوم کے حوصلوں کو بلند کردیا ہے۔ مرنا سب کو ہے لیکن جاتے جاتے کچھ ایسے کام کرکے جاؤ کہ مرنے کے بعد لوگوں کیلئے مثال بنو، ان کے دلوں میں ایک جگہ بنالو تاکہ مثال بنو، اپنے قوم اور دنیا کے مظلوم اور آزاد قوموں کے لیئے۔ اس کے بعد آپ کے قوم کو احساس ہوگا کہ مرو لیکن اپنے لیئے نہیں، اپنے قوم اور وطن کیلئے، پھر آپ کا قوم ایک سیاسی شکل میں تبدیل ہوجائیگا، آج اپنے قوم کو آزاد کرنے کیلئے آپ اپنے آپ کو قربان کرتے ہو تو وہی قوم اپنے آنے والے نسل کو آزادی کی جہد کیلئے قربان کریگا اور آپکے بعد اسے آپکی بہادری اور ہمت کی درس دیگا اور اس کے بعد دنیا کی کوئی طاقت یا ظالم ریاست آپ کو توڑ نہیں سکتا۔

ان 25 سالوں میں استاد نے ہر تکلیف برداشت کیا اور اپنے جہد کو اس جگہ پر لے آیا کہ ہر جوان اپنے وطن کیلئے قربان ہونے پر تیار ہے اور ہر کوئی یہی چاہتاہے کہ اپنے وطن کیلئے قربان ہوجاؤں ہر کوئی اپنی جوانی، اپنے گھر کے بارے میں کچھ بھی نہیں سوچتا کیونکہ یہ جنگ ایسے موڑ پر آکر کھڑا ہے کہ جوان اپنے آپ کو قربان کرنے پر ایک بار بھی سوچتے نہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں ۔