اختر مینگل، لاپتہ افراد، حکومت اور چند سوالات
نوروز لاشاری
دی بلوچستان پوسٹ
گذشتہ کچھ روز سے لاپتہ افراد کے بارے میں کافی شور شرابہ چل رہا ہے۔ کافی لوگ بازیاب ہوئے، ان کے خاندانوں کو مبارکباد دینا چاہونگا اس کے بعد میں وہ سوالات قوم کے سامنے رکھونگا جو میرے دماغ میں آئے، ان سوالات کا جواب تلاش کررہا ہوں انتظار میں رہونگا کہ کوئی رہنمائی کردے۔
عرض کرتا ہوں کہ لاپتہ افراد کا سلسلہ شروع سردار اختر مینگل کے بھائی سے ہوا، پھر کافی وقت کے بعد ماما قدیر نے کیمپ لگایا، لانگ مارچ کیا شہر شہر گئے۔ سردار اختر مینگل چند ماہ پہلے اٹھ کر آئے اور جو بندہ بازیاب ہوا، کریڈٹ سردار صاحب کو دیا جارہا ہے کہ بازیابی سردار صاحب کی وجہ سے ہوئی۔ بازیاب تو ڈاکٹر اللہ نذر ہوئے تھے، کمبر چاکر بھی بازیاب ہوئے تھے تو اس وقت کون بازیاب کرا رہا تھا؟ کیا بازیابی ہی ہمارا مسئلہ ہے؟ کیا اصل مسئلہ یہ نہیں کہ اٹھایا کیوں گیا؟
سردار صاحب اور ان کے پیروکار ہر بازیاب شخص پر واویلا کرتے ہیں کہ “شکریہ سردار صاحب” تو جو لوگ ان کے معاہدے سے لیکر اب تک شہید ہوئے یا لاپتہ ہوئے وہ سردار اختر مینگل کے نکات پر طمانچہ نہیں؟
ماما قدیر کے کیمپ کو 3 ہزار سے زیادہ دن ہوگئے پھر کئی لوگوں نے وہ کیمپ جوائن کیا یہ “شکریہ سردار صاحب” کے بجائے “شکریہ ماما” نہیں کہنا چاہیئے؟ جنہوں نے لسٹ بنائیں، جنہوں نے ہر حالات میں کیمپ چلایا، ہر حالات میں لواحقین سے رابطہ رکھا شکریہ کے حقدار ماما ہوئے یا وہ جو چند ماہ پہلے پارلیمنٹ تک پہنچے؟
پاکستانی پارلیمنٹیرینز جو لاپتہ افراد پر آواز اٹھا رہے ہیں، وہ یہ آواز اٹھا سکتے ہیں کہ جنہوں نے لاپتہ افراد کو ذہنی و جسمانی طور پر معذور کیا، تکالیف دیں ان کو سزا دی جائے؟
2,3 بندوں کو چھوڑ کر 10 ،20 لاپتہ کرنا کیا ریاست کی طرف سے چال نہیں کہ 2,3 بندوں پر اتنا واویلا کرو کہ پارلیمنٹ کی طاقت ظاہر ہو؟ حالانکہ پارلیمنٹ کی طاقت ہوتی تو اسلم رئیسانی کے دور میں ایک وزیر کے قریبی رشتہ دار کو اٹھا کر ٹارچر کرکے رہا نا کیا جاتا۔ پارلیمنٹ کی طاقت ہوتی تو آج سردار اختر مینگل اپنے بھائی کی قبر پر فاتحہ خوانی کرنے نا جاتے؟
آج یعنی بدھ کے دن بلوچستان کٹھ پتلی حکومت لاپتہ افراد کے حوالہ سے پریس کانفرنس کر رہی ہے، جس میں کہا جائے گا اتنے آزاد ہوئے وغیرہ کچھ دن پہلے یہی حکومت کہتی تھی وہ لوگ افغانستان و ایران میں ہیں، اب یہاں سے کیسے بازیاب ہونے لگے؟
کچھ عرصہ پہلے ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ غالباً بی ایس او آزاد کے کسی ممبر کا تھا جس پر لاپتہ “شبیر بلوچ” کی تصویر تھی، اس اکاؤنٹ نے سردار اختر مینگل کی کارکردگی پر سوال اٹھایا تو سردار اختر مینگل نے کہا “تم فلاں کمپنی کی شرٹ پہن کر مجھے بول رہے ہو کہ کیا کیا” اس ٹوئٹر اکاؤنٹ نے کہا “آپ کیسے مسنگ پرسنز کی آواز اٹھا رہے ہیں، جب آپ کو ایک لاپتہ طالب علم رہنما کا نہیں پتہ”
(یہ ٹویٹ خدا کرے اب موجود ہو)
18 سے 22 تاریخ تک یو این پریزیڈنٹ کا دورہ پاکستان ہے، کیا ریاست کچھ رہا کر کے شکریہ شکریہ کروا کر اس کو یہ تو نہیں دکھانا چاہتا کہ یہاں ایسے مسائل نہیں؟
کیا ماما، آنسہ، سیما وغیرہ کی جدوجہد کچھ نہیں جو ہم پارلیمنٹ کی ایک دو تقاریر پر 10 سالہ جدوجہد کو بھول رہے ہیں؟ کیا ماما قدیر اس تعریف و حوصلہ افزائی کا حقدار نہیں؟
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔