آنکھیں کھلی ہیں، احساس مرچکا ہے
سیف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان 70 برسوں سے ایک ایسے درندے کے قبضے میں ہے، جس کے درندگی کی داستان دنیا میں کہیں اور نہیں ملتیں. جس کے ظلم کی مثالیں دنیا کے کسی بھی ظالم قوت کی تاریخ سے نہیں جڑتی۔
یہ انسانیت سے عاری ریاست پاکستان جس سے پڑوسی ممالک اس کے دہشت گردی کے باعث پریشان ہیں. مکار آئی ایس آئی کی جانب اسلام کے ٹھیکیداروں کے ذریعے پاکستان کے مختلف مدرسوں سے جہاد کے نام پر طالب علموں کو منفی ذہنی تربیت دے کر انہیں افغانستان اور گردونواح میں خود کش حملوں کے لئے ٹرین کیا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کی خلاف ورزی والے ممالک کا اگر نام لیا جائے تو پاکستان کا نام اول فہرست میں شامل ہے. یہ وہ واحد ریاست ہے جس کی درندگی بنگلہ دیش کے تاریخ میں نظر آئے گی کہ اس نے وہاں کیسے ایک لاکھ سے زائد بنگالی خواتین کی بے حرمتی کی، ان کا ریپ کیا.
مگر وہاں اس کے مقدر میں شکست کا ایسا دن دیکھنے کو ملا جو ہمیشہ ان سب کے لئے باعث شرم ہے، جو خود کو پاکستانی پکارتے ہیں. انیس سو اکہتر میں نوے ہزار پاکستانی فوج نے بنگلہ دیش میں سرینڈر کا ایسا مظاہرہ کیا جو رہتی دنیا تک پاکستانیوں کی بزدلی کا واضح ثبوت دیتا رہے گا. بنگلہ اور انڈین سپاہیوں کی جانب سے سرینڈر کردہ پاکستانی گیدڑوں کے پتلون اتارے گئے جو ابھی تک وہاں کے میوزیم میں رکھے ہوئے ہیں.
پاکستان ایک کرائے کا ریاست ہے، جو اب چین کے ہاتھوں بِک چکا ہے. نہ ہی اس کا کوئی قومی تاریخ ہے نہ ہی اس نے کوئی تاریخی جنگ جیتا ہے. پاکستان بزدلوں کا ریاست ہے جو بندوق کی نوک پر نہتوں کو نشانہ بنا کر خود کو دنیا میں طاقتور ثابت کرنا چاہتا ہے.
فرنگیوں نے اسے اپنے وقتی مفادات کی خاطر برصغیر میں ایک ریاست کی شکل دے دیا تھا. لیکن یہاں وہ کہاوت ان کے مقدر ہوا کہ “کتا جب پاگل ہوتا ہے تو اپنے مالک کو کاٹتا ہے”. اب یہ ان ہی کے لئے دردِ سر بن چکا ہے. جن فرنگیوں نے اسے ملک قرار دیا تھا اب ان کو بھی اس کے دہشتگردی کے خوف نے گھیرے رکھا ہے. ان کو کوئی حل نہیں مل رہا ہے کہ اسے دنیا کے نقشے سے کیسے مٹا دیا جائے.
ستر سال نو مہینوں سے اس درندے نے بلوچ سرزمین پر اپنے خونی پنجے گاڑھ رکھے ہیں اور اپنی شیطانیت کا فعل جاری رکھا ہوا ہے، جو اب شدت اختیار کر چکا ہے. بلوچستان میں ریاستی درندگی انتہاء کو پہنچ چکا ہے. یہاں پاکستانی غلیظ فوج، آئی ایس آئی، ایم آئی کے ساتھ ساتھ ان کے کرائے کے غنڈے (ڈیتھ اسکواڈ)، دلال اور مذہبی شدت پسند بلوچ عوام کے خلاف صف آراء ہیں.
چائنا کا غلام (پاکستان) اپنے آقا کے سامراجی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے بلوچ عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔
آج بلوچستان کا ہر شہر پسماندہ ہے، گاؤں کے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے ہیں، ایک ایک گھر سے جوان، بوڑھے، بچے اور خواتین لاپتہ کئے گئے ہیں جو ریاستی عقوبت خانوں میں انسانیت سوز اذیتوں سے دوچار ہیں۔
کئی سالوں سے بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں. ان میں شیر خوار بچے بھی شامل ہیں جو سخت سردی میں اپنے پیاروں کی راہ تک رہے ہیں جو خاموش تماشائیوں کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے.
ریاست کا ہر ایک ادارہ انٹیلیجنس ایجنسیز اور فوج کے سامنے بے بس ہے، جو عملی طور پر اپنی مایوسی کا اظہار کر چکے ہیں. عدالتیں چوروں کے کیسز میں مصروف ہیں. جو بولے گا وہ غائب ہوجائے گا. قانون کا فیصلہ سنانے والے اپنے لاپتہ ہونے سے ڈرتے ہیں.
لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک سنگین مسئلہ ہے. وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز اس مسئلے کو لے کر کئی سالوں سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے بھوک ہڑتالی کیمپ لگا چکا ہے، طویل لانگ مارچ کر چکا ہے اور آج بھی اسی طرح اپنی پُر امن احتجاج جاری رکھا ہوا ہے لیکن کوئی بھی ان کی آواز سننے کے لئے تیار نہیں ہے بلکہ ریاست کی جانب مزید ان کی آواز دبانے کی ناکام کوششیں جاری ہیں. جو لواحقین کے پاس آ کر انہیں ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے پیاروں کے واپسی کا وعدہ کرتے ہیں، انہیں نہ صرف ریاستی ادارے یہاں تک کہ میڈیا بھی کوریج نہ دے کر نظر انداز کرتے ہیں.
انسانی حقوق کے ادارے برائے نام ہیں، جو اس مسئلے میں ناکام نظر آرہے ہیں. ان کی خاموشی کی وجہ سے یہ مسئلہ مزید شدت اختیار کرتا جا رہا. انسانی حقوق کے یہ ادارے انسانی برابری، ان کے حقوق اور انصاف کے تقاضے کو پورا کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں مگر یہاں وہ بھی بے بس نظر آتے ہیں یا میں یہ کہوں تو شاید غلط نہیں ہوگا کہ ان کے “آنکھیں کھلی ہیں، احساس مرچکا ہے”۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔