’’وہ جہد ایک سرزمین، ایک ایسے وطن کیلئے ہے جس میں بلوچ وہ سب اس کی انسانی ضروریات، اس کی زندگی ضروریات اس کی آزادی کا حق اسے حاصل ہوگی۔‘‘
بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ آج میں اپنے بلوچ عوام سے، جو بلوچ سرزمین یا بلوچ سرزمین سے باہر یا سندھ یا پھر جہاں بھی اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔میرے خیال میں بلوچ سرزمین پر جو ایک دور بلوچوں پر گزر رہا ہے۔ بلوچ کہ آغا عبدالکریم خان سے لیکربابو نوروز، شہید سفر خان، شہید لونگ خان، اسی جہد سے آج تک ہزاروں شہدا آگے لے جارہے ہیں اس جہد سے وہ بے خبر نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج بلوچ ایک ایسے مقام پر اپنے جدوجہد کے ساتھ پہنچا ہے کہ اس کو ہم ایک تاریخی اور فیصلہ کن وقت کہہ سکتے ہیں کہ آج بلوچ عوام جس کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبے سے ہیں وہ چاہے شاعر، ادیب، پروفیسر، دھکان، طالب علم کے شکل میں ہو،آج وہ اپنی بساط کے مطابق اپنا حصہ اپنے سرزمین کے لیے دے رہا ہے۔ آج بلوچ جہد اس حد تک آگے جاچکا ہے کہ اسے ختم کرنے کیلئے ایک دہشت گرد اور ایک ایسی ریاست جس کا نہ کوئی ایمان ہے،نہ قوم، نہ انسانیت ہے اور نہ ہی اس کا وجود ان انسانی اقداروں یا حق پر ہے۔
خلیل بلوچ نے کہا ہے کہ برطانیہ اپنی بڑی ریاست کو برقرار رکھ نہیں پاتا ہے جس کو وہ حصوں میں بانٹتا ہے جس میں ایک حصہ اس (پاکستان) کی شکلخ میں سامنے آتی ہے۔ لیکن بلوچ کی آزادی پاکستان سے پہلے ہے۔اسی آزادی کو پاکستان 72سال پہلے بلوچ سرزمین پر قبضہ کرکے ختم کرتا ہے۔ آج بلوچ اپنی جہد، اپنی جنگ کو اپنے شہداء کے خون سے، اپنے نوجوانوں کی قربانیوں سے، جو لوگ پاکستان کے عقوبت خانوں میں اذیتیں سہہ رہے ہیں ان کی شکل میں یا اپنی مسافت اور پسینے کی شکل میں جہد کو آگے لے جارہے ہیں۔وہ جہد ایک سرزمین، ایک ایسے وطن کیلئے ہے جس میں بلوچ وہ سب اس کی انسانی ضروریات، اس کی زندگی ضروریات اس کی آزادی کا حق اسے حاصل ہوگی۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ اس جدوجہد میں آج ایسی تندہی آئی ہے کہ یہ تندہی، یہ جہد اپنی قوم سے گزارش کررہا ہے کہ وہ اسی تناوری، تندہی اور اس مشکل وقت میں ثابت قدم رہے، وہ اس وقت اپنے لوگوں میں اس دور کے مطابق شعور پیدا کرے۔وہ اسی وقت جس میں ان کے ہزاروں بھائی، ان کی بہنیں، بلوچ کی عزت، جو عقوبت خانوں میں ہے ان کی بات آگے لیجانے کیلئے، ان کی قربانیوں کو دنیا کے سامنے ظاہر کرنے کیلئے کہ جس سفر کوچند لوگوں نے شروع کیا آج وہ ہزاروں کی شکل میں ہے ان کو لاکھوں کی شکل میں ہونا ہے تو اس کیلئے ضروری امر یہ ہے، آج جہد اس کا تقاضا ہے کہ ہم خود کو سمجھے، اپنی جدوجہد کو سمجھے، ہمیں اپنی جدوجہد کو دوسروں تک پہنچانے کی قابلیت ہو، ہم اپنی جہد کو مستحکم کرتے جائے، ہم اپنی عوام سے ہمقدم ہوں، ہم دنیا کو یہ دکھا سکے کہ بلوچ ایک ایسی قوم ہے کہ وہ قتل کیے جانے سے، وہ لوگوں کو لیجانے، لاپتہ کرنے سے اور لوگوں کے ننگ و ناموس پر ہاتھ ڈالے جس طرح اس (پاکستان) نے بنگلہ دیش میں کیا آج وہی سب کچھ بلوچ، سندھی اور پختون کیساتھ کررہا ہے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے مزید کہا کہ لہٰذا بلوچ جہاں بھی ہے، سندھ میں ہے تو وہ سندھودیش کیلئے جدوجہد کرے۔ بلوچ کی ایک بڑی آبادی سندھودیش میں ہے جو بلوچ سندھودیش میں رہ رہا ہے اس بلوچ کی سرزمین بلوچستان کی آزاد ریاست کیلئے آنے والے دنوں میں بلوچ کی اپنی ایک آزاد ریاست ہوگی۔سندھ میں رہنے والے بلوچوں کیلئے بھی اس سرزمین پر وہی مقام ہے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بلوچ وہی قوم ہے، بلوچ اس قوم کا نام ہے جو ظلم کے مقابلے سے آنکھیں نہیں چراتا ہے، چاہے وہ جہاں بھی ہو بلوچ حق کیلئے کھڑا ہوا ہے، بلوچ نے حق کیلئے خون دیا ہے، بلوچ نے باہوٹ رکھا ہے، بلوچ کی جو تاریخ ہے اس میں یہ نہیں ہے کہ بلوچ اپنی دشمن کو پیٹھ کر دکھا کر بھاگ گیا ہو بلکہ بلوچ نے ہر حملہ آور کا مقابلہ کیا ہے۔ خان محراب خان سے لیکر آج تک،خان محراب خان سے پہلے بلوچ کی تاریخ ہے۔ آج مہر گڑھ وہ تاریخ جو دنیا میں قدیم ترین تاریخ ہے۔ مہر گڑھ میں آپ (بلوچ) کی تاریخ کچھ کے مطابق گیارہ ہزار سال یا نو ہزار سال تاریخ ہے پھر پنجابی کیسے آج یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ وہ بلوچ کا حاکم ہے۔ پنجابی کے حاکمیت کے اس غرور کو ہمیں تھوڑنا ہے۔ ہمیں اپنے آزاد وطن کیلئے، اپنے آزاد ریاست کیلئے جو جذبہ ہم اپنے نوجوانوں، بزرگوں، شیرزال ماں، بہنوں میں دیکھ رہے ہیں اس جذبے کو ہمیں وسعت دینی ہے، اس جذبے کو ہم جتنی وسعت دے سکتے ہیں، جس شکل میں، کوئی اپنے قلم، اپنے شاعری کے شکل میں، کوئی اپنے گلوکار اپنے فن کیساتھ اسے آگے بڑھا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جتنے بھی بلوچ ہے، بلوچ کی جتنی بھی آبادی ہے، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو اسے اپنا حصہ بلوچ کے آزادی کے جہد میں اپنی بساط کے مطابق جس اس میں طاقت ہے یا جتنا وہ بوجھ اٹھا سکتا ہے اس بوجھ کو اٹھائے اور دنیا کو دکھائے کہ بلوچ وہ قوم ہے کہ جس نے تاریخ میں کسی کے سامنے اپنا سر نہیں جھکایا ہے۔ ہم بابو نوروز کو دیکھے اس نے نوے سال کی عمر میں اپنا سر نہیں جھکایا،نواب اکبر خان نے نوے سال کی عمر میں اپنا سر نہیں جھکایا، شہید سدو مری نے بھی نواسی سال کی عمر میں اپنا سر جھکایا اور بھی بہت سے شہیدنوجوان ہے کہ انہوں نے اپنی جان مسکراتے ہوئے قربان کیا، وہ جانتے ہے کہ وہ اپنی موت، اپنی زندگی وہ اس وقت کو جانتے ہیں کہ کس وقت مجھے اپنی زندگی، اپنا خون اپنے زمین کو دینی ہے لہٰذا ہم دیکھے کہ ہم کیا دے سکتے ہیں، اپنی جتنی بساط ہے کہ ہم اپنی قوم اور سرزمین کو دے سکتے ہیں اور اپنے لوگوں میں کتنا شعور پیدا کرسکتے ہیں۔ہم یہی امید کرتے ہیں، اپنے بلوچ قوم سے یہی گزارش کرتے ہیں کہ جہاں بھی ہے اپنے قوم کے اوپر ہونے والے ظلم، جبر، بربریت، اس کے عزت و ناموس پر آتا ہے وہ اس حوالے سے نہ صرف کھڑے ہوکر اپنے دشمن سے مقابلہ کرے بلکہ دنیا، اپنے لوگوں، ہمساؤں کو سمجھائے اور ان کو اس حوالے سے باخبر کرے۔ میں یہی توقع رکھتا ہو اور امید ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ نیشنل موؤمنٹ (بی این ایم) یہ پارٹی، اس کی لیڈر شپ غلام محمد، ڈاکٹر منان، لالا منیر، شہد رسول بخش، شہید صمد جان اور دوسرے بہت سے ساتھیوں کی شکل میں اپنا خون دیا ہے لیکن انہوں پاکستان اور پاکستانی فوج کے سامنے اپنا سر نہیں جھکایا ہے، ہزاروں بلوچ پاکستان کے عقوبت خانوں میں ہے لیکن انہوں نے اپنا سر نہیں جھکایا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ سنگت ثناء ہو یا جلیل جان ہو، عابد جان یا رزاق گل ہو یا ریحان جان ہو ان ساتھیوں نے مسکراتے ہوئے اپنے جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہمارے مستقبل اور نسل کیلئے لہٰذا ہمیں اپنے آنے والے نسل کیلئے ایک آزاد وطن اور آزاد سرزمین جس میں وہ اپنا سر اٹھاکر فخر سے زندہ ہو، فخر سے وہ اپنی زندگی گزارے، وہ کسی کا غلام نہ ہو اپنے وسائل کاوارث اور مالک ہو۔ آج کوئی چین سے آکر آپ کے وسائل لیجاتا ہے یا کوئی سعودی سے آکر آپ کے وسائل لیجانے کی کوشش کرتا ہے انہیں ہمیں روکھنا ہے اور انہیں ہم اس وقت رکھ سکتے ہیں جب ہم ایک قوم کی شکل میں ایک ساتھ کھڑے ہوکر ان کا مقابلہ کرینگے۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح بھی ہم ان کا مقابلہ کرسکے، کوئی اپنے بساط کے مطابق وہ کچھ لکھتا ہے یہ اس کی بڑی حصہ داری ہے۔ کوئی ایک شئر کہتا ہے اس کا حصہ ہے، کوئی سڑکوں پر نکل آتا ہے، کوئی کسی طریقے سے اپنا اظہار کرتا ہے وہ اس کی حصہ داری ہے، وہ اس کا حق اور فرض ہے۔ بلوچ سرزمین کے مٹی سے جنم لینے والی عوام اپنی مٹی، اپنی سرزمین سے ضرور محبت کرتا ہے۔ اسی محبت کو ہمیں آگے بڑھانا اور اس سفر میں ہمیں شہداء کا خون نظر آتا ہے، اس سفر میں ہمیں اپنے غازیوں کاخون نظر آتا ہے لہٰذا ہمیں اس سفر کو آگے بڑھاتے ہوئے منزل تک پہنچانا ہے اور یہ ہر بلوچ پر فرض ہے چاہے وہ دنیا کے کس کونے میں بھی ہے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ انہی باتوں کے ساتھ میں اپنے لوگوں، اپنے سننے والوں، اپنے ساتھیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور مجھے اپنے رب پر یقین ہے،اپنے قوم، جہدکاروں، ساتھیوں اور اپنے آئندہ نسل پر یقین ہے کہ وہ ضرور آزادی حاصل کرینگے۔