آزادی کا پیغمبر، جنرل اسلم بلوچ – کمبر بلوچ

369

آزادی کا پیغمبر، جنرل اسلم بلوچ

کمبر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

سب سے پہلے میں ہاتھ باندھ کر، سر جُھکا کر شہید اعظم شہید جنرل اُستاد اسلم جان، شہید سردروجان، شہیدفرید جان، شہید صادق جان، شہید رُستم جان، شہید رحیم جان کو سُہریں سلام پیش کرتا ہوں. کافی دیر سے سوچ رہا ہوں کہ کُچھ لکھوں لیکن نہ ہاتھ ساتھ دے رہے تھے نا ہی ذہن ساتھ تھا. دھڑکتے ہوئے دل سے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے قلم اُٹھا کر خون کے آنسو روتے ہوئے کُچھ لکھنا شروع کیا.

نہ جانے کہاں سے شروع کروں اور کہاں پر ختم کروں، کیونکہ میں ایک شخص کے بارے میں نہیں لکھ رہا ہوں. ایک سوچ، ایک نظریہ، ایک فکر، ایک تاریخ، ایک پیغمبر نما انسان کے بارے میں لکھ رہا ہوں. ان جیسے انسانوں کے بارے میں لکھنا مجھ جیسے ان پڑھ کے بس کی بات نہیں. اپنے ٹوٹے پھوٹے لفظوں کو ترتیب دینے کی کوشش کرتا ہوں، اگر کوئی غلطی سر زد ہوئی تو مجھے معاف کریں.

شاید صدیوں میں کتابوں کے اوراق میں یا کہیں کسی دوست سے ان جیسے انسانوں کے بارے میں پڑھا یا سُنا، لیکن اُستاد اسلم جان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا. وہ ایک شفیق مہربان باپ، دوست، بھائی، اُستاد سب کُچھ تھا. آپ ایک سیاسی معتبر، دانشور، لیڈر، جنگی کمانڈر تھے، ان سب چیزوں میں اللہ پاک نے اُسے مہارت عطا کی تھی. کہتے ہیں کہ دُنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمر آئے ہیں.ان کا کام یہی تھا کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام لے کر ان کے اُمتیوں تک پُہنچائیں. اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اُستاد اسلم جان کو بلوچ قوم کیلئے بھیجا تھا.

اللہ تعالیٰ نے اُسے کم مُدت میں بہُت کچھ کرنے کو کہا تھا، اس قوم کیلئے واقعی اُستاد نے کم مدت میں سب کچھ کیا۔ اپنے قوم کی آواز دنیا کے کونے کونے تک پُہنچا دیا کہ یہاں بھی بلوچستان میں ایک قوم ہے، اُسے بلوچ کہتے ہیں. خالق کو اپنا منظور تھا انُہیں بھیجا اور جلدی واپس بُلالیا۔ اگر میرا یا اس مظلوم قوم کا سُنتا تو اتنی جلدی واپس نہیں بُلاتا. مگر قادر خالق اپنی مرضی و منشا کے مطابق دُنیا کو چلاتا ہے.

اُستاد کو میں بلوچ قوم کا پیغمبر کہوں شاید میں غلط نہیں ہونگا.کیونکہ اُستاد نے قربانی کی حدیں پارکیں. کہتے ہیں کہ حضرت ابراھیم اللہ تعالیٰ کے فرمان پر اپنے بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان گاہ میں لےگئے، لیکن اُستاد ہنسی خوشی سے مادروطن کیلئے اپنے جوان اور دولہے بیٹے شہید فدائی ریحان جان کو قربانی کیلئے بھیج دیا۔ یہ ہے عشق و جنون، یہ ہے قربانی اور یہ ہے بہادری کی نشانی. وہ ہر وقت اپنے قوم کی رہنمائی کرتا تھا اور آج بھی کر رہا ہے کیونکہ اُستاد ایک سوچ و نظریئے کا نام ہے. وہ ہر مشکل وقت میں قوم کی رہنمائی کرتا. ہروقت قومی تحریک بُحرانی کیفیت کا شکار ہوتا یا کسی موڑ پہ آکر رُکتا تو اُستاد سب سے پہلے پیش پیش تھے. وہ تحریک کو ہر بحرانی کیفیت سے نکالتا تھا.

اُستاد نہ صرف ایک سیاسی مُتعبر تھے بلکہ ایک نڈر اور بہادراور مخلص، ایماندار انسان بھی تھے. اُستاد جان نے دشمن کو ہر میدان میں شکست دی. چاہے سیاسی میدان ہو یا جنگی میدان ہو. دشمن پاکستان سیخ پا ہو کر اُستاد اسلم جان کی سر کی قیمت ۵۰ لاکھ رکھ دیا.

دشمن پاکستان کے آئی ایس آئی، ایم آئی اور چند زرخریدوں نے اُستاد کا پیچھا کرنا شروع کیا. پاکستان کو یہی ڈر تھا کہ اُستاد ہمیں تباہ و برباد کردے گا. ہمیں پہلے بھی اُستاد نےتباہ و برباد کردیا ہے. ہمارے کرائے کے سپاہیوں کو مارا ہے، ان کی بندوقیں بھی چھین چکُے ہیں، حتیٰ کے انکے پتلونوں کو بھی نکالا گیاہے.اُستاد نے کیا کیا نہ کیا ہمارے ساتھ .جلدی کرو اُستاد کو مارو کہ ہم تباہ و برباد ہو رہے ہیں. ہمارے ہر سازش کو اُستاد ناکام کر رہا ہے. ہم نے بلوچوں کو دین و مذہب کے نام پہ لڑایا، قبیلوں اور فرقوں کے نام پہ بانٹا، انُکے چند بےضمیروں کو خرید لیا، ان کے مسلع گُروہوں کو آپس میں لڑایا. ان سب سازشوں کو آزمایا. ان سب آزمائیشوں کو اُستاد نے ناکام کردیا. اب اُستاد کے مارنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے. کیونکہ اُستاد سارے قوم کو اکھٹا کر رہے ہیں. سندھی، پشتون ،بلوچ آپس میں شیر وشکر ہیں. یہ سب اُستاد کے کام ہیں، اُن کو ضرور مارنا ہے.

آخر کار پاکستان اپنے اس مشن میں کامیاب ہوا. اُستاد جیسے انسانوں کی شہادت واقعی قومی نقصان ہے لیکن یہ بھول گئے کہ اُستاد اسلم ایک فکر کا نام ہے، ایک سوچ کا نام ہے، وہ کیسے ختم ہوگا. اُستاد کو جسمانی طور پر ہم سے جدا کرنے میں وہ کامیاب ہوئے لیکن فکری و نظریاتی طورپر جدا نہیں کر سکتے ہیں. کیونکہ اُستاد ہمارے دلوں کے اندر موجود ہے.

اُستاد اب بھی ہمارے صفوں میں موجود ہے اور ہماری رہنمائی کر رہے ہیں. آج تک دل یہ نہیں مانتا کہ اُستاد ہم سے جُدا ہو گئے کیونکہ جنرل کی ہر دی ہوئی تربیت و تعلیمات آج نہ صرف میرے دل میں، نہ صرف بلوچ قوم کے دل میں بلکہ رہتی دُنیا کے تمام مظلم و محکوم قوم کے دلوں میں موجود ہیں اور رہینگی۔

یہ پاکستان اور اسکے حواریوں کی بھول ہے کہ اب اُستاد نہیں ہے، ہم دم لینگے اُستاد نے ان ۲۵ سالوں میں ہر بلوچ کے گھر میں ایک اُستاد اسلم تیار کیا ہوا ہے. وہ قہر بن کر پاکستان پر ٹوٹ پڑینگے. آج میں فخر سے سر اٹھا کر کہتا ہوں کہ اُستاد ہمارا رہبر، ہیرو، لیڈر سب کچھ تھا اور رہے گا۔ جب تک استاد کی دی ہوئی بارگراں کو ہم منزل مقصود تک نہیں پہنچائیں گے، تب تک ہم دم نہیں لیں گے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں ۔