Self-Sacrifice فدائی

325

Self-Sacrifice فدائی

زیمل بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ

فدائی عربی زبان کا لفظ ہے جسکے معنی خود کو قربان کرنا اور یہ عمل مظلوم اور محکوم اقوام آخری معرکے کے طور پر دشمن کے خلاف استعمال کرتے ہیں، جس میں کامیابی کے امکانات سو فیصد ہوتے ہیں جس کو روکنے کے لیے اسرائیل سے لے کر اقوام عالم کے دیگر سپر پاور ممالک تک ناکام نظر آتے ہیں۔ کردُوں نے بھی قابض کے خلاف یہ ہتھیار استعمال کیا ہے اور تامل ٹائیگرز نے بھی سری لنکا میں اس عمل کو کئی بار دہرایا ہے، جان فدا کرنے کا یہ عمل نہ کسی کے نفسیات میں پلتا ہے نہ ہی کوئی قوم بخوشی ایسے عمل کو چنتا ہے۔

جب آپ کسی جانور کو بھی ایک کمرے میں بند کرتے ہیں یا کسی پنجرے میں تو وہ اس کے خلاف مزاحمت کرتی ہے، خود کو آزاد کرانے کے لیے تو انسان تو پھر اشراف المخلوقات ٹہرا۔

اپنی غلامی کے خلاف لڑنے والے چیچن یا داغستانی ہوں، افریقی ہوں یا ویت نامی، کیوبن ہوں یا اٹالین، ایسٹ تیموری ہوں یا آئریش کسی قوم کو جب غلام بنایا جاتا ہے تو وہ اپنے دفاع میں اپنے لوگوں کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں، تاریخ کے اوراق پلٹنے سے ہمیں مزاحمت کی کئی کہانیوں سے وابستگی یا یکسانیت کی نظریں ملیں گی۔

اگر فدائی حملوں کا دنیا بھر میں مختصر جائزہ لیا جائے تو تقریبا 1980سے سنہ دو ہزار تک تاملوں نے سری لنکا میں 168 کے لگ بھگ خودکش حملے کیئے، جس میں ملڑی ٹارگٹ سے لے کر اقتصادی مقامات کو نشانہ بنایا گیا لیکن بد قسمتی سے سویلین مقامات پر بھی فدائی حملے کیے گئے جس کی وجہ سے تاملوں کو نقصان اٹھانا پڑا۔

دنیا کے دیگر اقوام کی طرح بلوچ بھی استعمار کے مسلط کردہ کرایے کے سپاہیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں، خون دے رہے ہیں، بہا بھی رہے ہیں، جس میں بلوچوں نے تمام راستے عالمی جنگی اصولوں کے دائرے میں رہ کر آزمائے ہیں تختہ دار کو چوما ہے سیاسی مزاحمت سے لے عسکریت پسندی کی حد تک جہد مسلسل پر گامزن رہے ہیں۔

گذشتہ دنوں چینی قونصلیٹ پر تین بلوچ نوجوانوں کے فدائی حملے نے بلوچ جدوجہد میں نئی روح پھونک دی ہے، شہید جلال جان، شہید رئیس جان اور شہید ازل جان کی لازوال قربانی نے دنیا کو بلوچوں کی طرف متوجہ کیا ہے۔

دنیا فدائی حملوں کو دہشت گردی سمجھتی ہے، مگر اسی دنیا کے ہوتے ہوئے پاکستانی افواج کی اکہتر سالہ دہشت گردی کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان کے خلاف لڑنے والے بلوچ مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے مجید برگیڈ سے تعلق رکھنے والے تین جانبازوں نے دنیا پر واضح کردیا کہ آپ ہماری نسل کشی کو متواتر نظر انداز نہیں کرسکتے، دراصل یہ حملہ ایک عسکری تنظیم کی طرف سے ایک سیاسی احتجاج تھا وگرنہ وہ چاہتے تو پاسپورٹ سیکشن میں پہنچنے کے باوجود بیس سے پچیس پاکستانی عام شہریوں کو یرغمال بنا سکتے تھے مگر بلوچوں نے اپنی جان دے کر چین سمیت دیگر طاقتوں کو ایک سیاسی پیغام دیا تھا کہ ہماری سرزمین پر آپ کے قدم بغیر ہماری اجازت کے نہیں جم سکیں گے۔

اس سے قبل اسی قومی فوج کے ایک فدائی شہید درویش نے بھی فدائی حملہ کرکے مسکراتے ہوئے موت کے منہ میں جانے کا فیصلہ کرکے دشمن کے زر خرید و تھالی چٹوں کے ارادوں کو ناکام بنایا تھا یا پھر چند ماہ قبل بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ استاد اسلم بلوچ کے بیٹے ریحان بلوچ نے چائینز کی بس پر فدائی حملہ کرکے یہ پیغام دیا تھا کہ بلوچ وطن کے فرزند اپنی جان سے جائیں گے مگر اپنی زمین کی لوٹ مار اتنی آسانی سے نہیں ہونے دیں گے۔

بلوچوں میں فدائی حملے کو پہلی بار شہید مجید اوّل نے متعاراف کرایا تھا، جو آج سے چار دہائی پہلے تقریبا ایشیاء میں ہونے والا پہلا فدائی حملہ تھا۔ جو پاکستان کے وزیر اعظم ذولفقار بھٹو پر کیا گیا تھا جس میں وہ محفوظ رہے تھے، کراچی میں چینی قونصلیٹ پر ہونے والا فدائی حملہ دراصل چین پر حملہ تھا جس کو دنیا بھر کے میڈیا نے کوریج دیا جس میں پہلی بار بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچوں کو ڈِسکس کیا گیا تھا۔

جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچ قوم کے نوجوان باشعور جنگ لڑتے ہوئے اپنے انسانیت اور آزادی کا پیغام دنیا تک پہنچا رہے ہیں، انہی نوجوانوں کے قربانی کی بدولت آگے چل کر شمعوں کی روشنی اور نکھر کر رستوں کو واضح کر دیگا، انکے نقش قدم پر چل کر جہد آجوئی کے سپاہی اپنے قوم ملک و وطن کی دفاع کرتے رہیں گے۔

شہید ازل خان مری، شہید جلال بلوچ، شہید رئیس بلوچ، شہید ریحان بلوچ، شہید مجید بلوچ اور شہید درویش بلوچ کی لازوال قربانی اور نجانے کتنے بلوچ فرزند اپنے وطن کو سر سبز رکھنے کے لیے اپنے خون سے آبیاری کرتے رہیں گے ۔۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔