دس دسمبر، انسانی حقوق کا عالمی دن – لطیف بلوچ

1162

دس دسمبر انسانی حقوق کا عالمی دن

لطیف بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ

انسانی حقوق  انسانی آزادی، خودمختاری اور حقوق کا وہ بنیادی فلسفہ ہے جس میں تمام انسانوں کے حقوق یکساں ہے اور وہ بنیادی انسانی حقوق کے حقدار ہیں، دوسری جنگ عظیم کے بعد انسانی حقوق کا یونیورسل ڈیکلریشن 10 دسمبر 1948 کو ایک قرارداد کے ذریعے منظور کیا گیا اور اس طرح انسانی حقوق کا آفاقی منشور ترتیب دیا گیا اور انسانوں کو زندگی کے حقوق، مذہبی آزادی کے حقوق، انسانی آزادی کے حقوق، اظہار رائے، بحث و مباحثے کے حقوق اور سیاسی و سماجی حقوق کو تسلیم کیا گیا، بنیادی انسانی حقوق میں انسانوں کو اپنی زندگی، اپنے مرضی سے جینے کا مکمل حق دیا گیا ہے۔ اس سے قبل جب دنیا میں ایسا کوئی نظام موجود نہیں تھا، ایسا کوئی نظریہ اور منشور نہیں تھا کہ انسانوں کے حقوق کا تحفظ ہو جنگل کا قانون رائج تھا جس کا لاٹھی اُس کا بھینس لیکن 1948 میں متفقہ طور پر انسانی حقوق کا منشور ترتیب دیا گیا اور ریاستوں سمیت دیگر طاقتور قوتوں کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ وہ انسانی حقوق کا مکمل خیال رکھیں گے اور تمام انسانوں کو برابری کے بنیاد پر اُنکے بنیادی حقوق مہیا کرینگے، انسان اپنے مذہبی رسومات ادا کرنے میں آزاد ہونگے، زندگی گزارنے کی اُنھیں مکمل آزادی ہوگی، اظہار رائے کی آزادی ہوگی وہ ناانصافی اور نابرابری پر اپنے حکمرانوں سے پوچھ سکیں گے سوال اُٹھا سکیں گے، تحریر اور تقریر کی آزادی ہوگی۔ انسانی حقوق کے عالمی منشور کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے اندر تین اہم باتوں پر زور دیا گیا ہے، ان میں ایک فرد کی آزادی اور اس کی حفاظت، دوسرا عدل و انصاف اور تیسرا مساوات۔

اقوام متحدہ کے ہر رکن ملک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس عالمی منشور کا احترام کرے اور اس کی روشنی میں اپنے ملک کے شہریوں کو حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائے ان حقوق میں جینے کا حق، امتیاز سے پاک مساوات اور برابری کا حق، اظہار رائے کی آزادی، معاشی، سماجی اورثقافتی حقوق شامل ہیں۔ اس کو ماننا اور اس پر عمل کرنا ہر اس ملک کے لئے لازم ہے جو اقوام متحدہ کا ممبر بن چکا ہو۔

بلوچستان میں اس کے برعکس ہے، پاکستانی ریاست انسانوں کے تمام بنیادی انسانی حقوق سلب کرچکا ہے، پاکستان اقوام متحدہ کا رُکن ہونے کے باوجود اقوام متحدہ کے اس انسانی حقوق کے یونیورسل ڈیکلریشن کی دھجیاں بہت بے رحمی سے اُڑا رہا ہے اور انسانی حقوق کے بنیادی منشور کو فوجی بوٹوں تلے روند رہا ہے۔ نہ مذہبی آزادی ہے، نہ سیاسی آزادی ہے، نہ انسانی آزادی ہے اور نہ ہی اظہار رائے کی آزادی ہے، انسان مکمل یرغمال ہے وہ بات نہیں کرسکتے، بول نہیں سکتے، ظلم و ناانصافی کے خلاف آواز نہیں اُٹھا سکتے آج دنیا میں بلوچستان وہ واحد خطہ ہے جہاں انسان خوف میں زندگی گزار رہے ہیں اتنے مجبور اور بے بس ہیں، وہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر بھی بات نہیں کرسکتے، حقوق مانگنا، تعلیم مانگنا، انصاف مانگنا روزگار مانگنا تو درکنار اور انتہائی مشکل مرحلہ ہے۔

انسانی حقوق کا منشور اور نظریہ انسانوں کے فلاح و بہبود اور تحفظ کے لئے بنایا گیا ہے لیکن یہاں زندہ انسان لاپتہ ہیں، انسانوں کی جبری گمشدگی انسانی حقوق کے سنگین پامالیوں اور خلاف ورزیوں کے زمرے میں آتے ہیں لیکن اس ہولناک انسانی المیے پر خاموشی، بے حسی بھی ایک سنگین جرم اور بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے مترادف ہے، جہاں اس جرم کے مرتکب ریاست اور ریاستی ادارے ہورہے ہیں تو خاموش انسانی حقوق کے علمبردار بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں، انسانی حقوق کے ملکی و بین الاقوامی ادارے بھی اس سنگین انسانی المیے پر چشم پوشی اور مجرمانہ خاموشی اختیار کرچکے ہیں لیکن آج کے دن دنیا بھر میں بڑے بڑے تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا، انسانی حقوق کے تحفظ کے لیئے بلند و بانگ دعوے کیئے جائینگے، بھاشن بازی ہوگی لیکن حقیقت سے جان بوجھ کر نظریں چرایا جائے گا۔

بلوچستان انسانوں کے لئے پر اسرار برمودا ٹرائینگل بن چکا ہے، یہاں انسان ایسے لاپتہ ہوتے ہیں، پھر اُن کا نام و نشان تک نہیں ملتا جو بھی گمشدہ لوگوں کو ڈھونڈنے کے لئے نکلتا ہے وہ بھی اس پر اسرار برمودا ٹرائینگل کا نذر ہوجاتا ہے۔

گمشدگی کے خوف سے کوئی اس برمودہ ٹرائینگل کے حقیقت کے بارے میں بات کرنے کے لئے تیار نہیں سب ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں، میڈیا، عدلیہ، سیاستدان، سول سوسائٹی سمیت انسانی حقوق کے ادارے و تنظیمیں بھی خوف و سراسمیگی کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ یونائیٹڈ نیشن ہیومن رائٹس کو نسل ( یو این ایچ آر سی ) میں بلوچ نمائندے خصوصاً مہران بلوچ اور نورالدین مینگل گذشتہ ایک دہائی سے جارہے ہیں اور وہ پاکستانی ریاست، فوج اور انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کے متعلق آگاہی فراہم کررہے ہیں لیکن اقوام متحدہ سمیت دیگر اداروں میں بھی بلوچوں کی کوئی شنوائی نہیں ہورہی بلکہ UNHRC سمیت دیگر ادارے بلوچوں پر ہونے والی مظالم، بربریت اور نسل کشی پر مکمل خاموشی اختیار کرچکے ہیں، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ذیلی تنظیم سمیت دیگر عالمی اداروں کو چاہیے کہ وہ بلوچستان میں جاری فوجی مظالم ، انٹیلی جینس اداروں کے ہاتھوں انسانی حقوق کے پامالیوں کا نوٹس لے پاکستان کو انسانیت کے خلاف جرائم پر جوابدہ بنائیں اور بلوچستان میں اظہار رائے کی آزادی، مذہبی آزادی، خواتین کی آزادی کو یقینی بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات اُٹھائیں، اگر اب بھی عالمی اداروں اور مہذب و انسانیت پسند ممالک نے خاموشی اختیار کی تو بلوچستان جو بدترین انسانی بحران جنم لے رہی ہے، اس کے بہت خطرناک نتائج برآمد ہونگے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں اور اداروں کو چاہیئے کہ وہ انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر لاپتہ بلوچوں کے خاندانوں سے اظہار یکجہتی کے لئے دنیا بھر میں اس دن کو لاپتہ افراد سے اظہار یکجہتی کے طور پر منائیں، انسانی حقوق پامالیوں کو روکنے کے لئے زبانی دعووں کے بجائے عملی اقدامات اُٹھائیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔