یادِ میرل ۔ سادھو بلوچ

258

یادِ میرل

تحریر. سادھو بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

میں ایک شام اندھیرے میں بیٹھا اپنے خیالوں میں گم تھا تو حاجی نامی سنگت نے مجھے آواز دی، میرے سامنے آکر پوچھا کیوں تنہاٸی میں بیٹھے ہو؟ حاجی میرے بچپن کادوست ہے۔ ہمیشہ میں اس سے اپنے دل کی بات کرتا ہوں۔ خیر اس نے مجھے تنہاٸی کے بارے میں پوچھا، میں نے جواب نہیں دیا، کچھ لمحوں کے بعدشروع ہوگئے دنیاوی مجلس، مزاق اور قہقہے۔ اچانک سنگت حاجی نے میرے موباٸل کا کوڈ کھول کرتصویروں کو دیکھنا شروع ہوگیا، دیکھتے دیکھتے شہید میرل جان اور اس کے بیٹے شےمرید کی تصویر پر نظر پڑی، حاجی خاموشی ہوٸے اور کچھ دیر بعد اس نے کہا کہ “دیکھو شے جان قبر کے قریب کھڑے دونوں ہاتھوں کو اوپر کرکے اپنے باپ کے لٸے دعا مانگ رہا ہے، بچے کو کیا پتہ کس کا قبر ہے اور کیا دعا مانگ رہا ہوں۔”

“یار شے جان کی عمر ٢ سال اور کچھے مہینے ہوگی” دنیا کتنی بڑی ظالم ہوتی ہے۔” ہاں یار جب ہم لوگ شے جاں کے بارے میں بات کرتے تو میرل جان یہی کہتا تھا زیادہ میرے پاس نہیں آتا، نہ میرے ساتھ کھیلتا ہے، آج دیکھو وہ میرل جان کے پاس کھڑا ہے، مگر میرل جان اس سےبات نہیں کررہا۔

ہاں سعادو! میرل جان کی ہر بات اور اس کا مسکرانا ہمیشہ یاد رہتا ہوگا۔

ہاں یار حاجی! کون بھول سکتا ہے، ایک بہت اچھی عادت تھی میرل جان کی، جتنی بھی پریشانی ہو یا کوئی بہت بڑا مسئلہ ہو “اللہ خیر کنت آگے دیکھا جاٸیگا، میں ہوں نہ پریشانی کی کوٸی بات نہیں” کہہ کر سب کو تسلی دے دیتا تھا۔

ہاں سعادو! میں ہمیشہ سوچتا ہوں میرل جان 24 25 سال کی عمر میں بہت برداشت اور صبر کرنے والے انسان تھے۔ اس چھوٹی عمر میں لوگ خود نہیں جانتے کہ آگے ہم کیا کرینگے۔ میرل جان ایک اچھا باپ بھی تھا، بہت خوبصورتی اور اخلاق سے عظیم لیڈورں کی طرح ہم لوگوں کی رہنماٸی کرتا تھا۔ ہر کام میں خود آگے تھا اور ہمیں احساس ہونے نہیں دے تھا ۔

ہاں یار حاجی! مجھے یاد ہے وہ دن جب علاقے میں قمبرخان مینگل نے لوگوں کو ہمارے خلاف استعمال کرنا شروع کیا تو میرل جان ان لوگوں کو سمجھانے کیلٸے روزانہ صبح نکلتا تھا، شام کو واپس آتا اپنے تھکاوٹ کو کسی کو محسوس ہونے نہیں دیتا، ہمیشہ سوچتا تھا، ان لوگوں کو کیسے سمجھائے کہ وہ غلط راستے پر جارہے ہیں۔ ان بدبختوں کو پتہ نہیں کہ قمبر مینگل انہیں استعمال کررہا ہے۔

ارے سعادو! میں خود تین چار مرتبہ شہید میرل جان کے ساتھ تھا، راستے میں مجھ سے وہ ان لوگوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ قمبر خان خود بے وقوفی کر رہا ہے، ان لوگوں کو اپنے ساتھ اس مشکل میں ڈال رہاہے، آپ کو یاد ہوگا کہ اس مسئلے کی دوران بی ایل اے کے دوستوں پر حملہ ہوا، دوسری شام کو جب میرل جان واپس آیا، بہت پریشان تھا، گپ شپ میں بتارہاتھا کہ “ان لوگوں کو بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر ان لوگوں کے سمجھ میں کچھ نہیں آیا، اب مجبوراً دوسرے طریقے سے سمجھانا پڑے گا ۔

شہید میرل جان نے فیصلہ کیا کہ بی ایل اے کے دوستوں سے ملاقات کر کے ان لوگوں کے بارے میں کچھ سوچتے ہیں۔ کچھ دونوں کے بعد بی ایل اے کے دوستوں سے ملاقات ہوی، ایک دوسرے سے تعاون اور ایک ساتھ بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ آپ کو خود معلوم ہے اس فیصلے سے کچھ دوست خوش نہیں تھے اور ساتھ کام کرنے میں بھی خوش نہیں تھے۔ اس مشکل وقت میں شہید میرل جان نے فیصلہ تو کیا دوسری طرف ان دوستوں کو سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ مانے نہیں۔

ہاں یار حاجی! آپ خود سوچیں دوستوں نے نہیں مانا، ان لوگوں کو منانا اور اس فیصلے پر صبر اور برداشت سے کام کرنا، ایک عیظم لیڈر کی طرح ان سب کو ساتھ لیکر کام کرنا، ہر بات کو برداشت اور اچھے طریقے سے سوچنا، بہت بڑی بات تھی۔ شہید میرل جان کےلٸے، دونوں تنظیموں کو ایک ساتھ یکجا کرنا، آج ان کی صبر، اچھے فیصلے کی وجہ سے دونوں تنظیم ایک شکل میں متحد ہوٸےہیں۔

ارے سعادو۔۔۔۔۔۔؟

نہ یار حاجی! اس بات کا یہ مطلب نہیں کہ میرل جان نے مرکزی فیصلہ کیاہے۔ یہاں بی ایل اےکے دوستوں کے ساتھ بیٹھناہر وقت کام کیلٸے تیار ہونااور اس فیصلے کو ترقی دینا، اس لیٸے میں کہتاہوں میرل جان کا فیصلہ آج ایک کامیاب فیصلہ ثابت ہوا۔

ارے سعادو! آپ ٹھیک کہتے ہو

ہاں یار حاجی! میرل جان خود کو قربان کرنے ہر وقت تیار تھا۔ اپنے مقصد کو خاران اور نوشکی کےمخلوق تک پہنچانے کے لیٸے بہت محنت کی، کٸی دنوں کےلٸے گشت پر جاتا تھا۔

ارے سعادو! نوشکی اور خاران کیا وہ دوسرے علاقوں کے بارے بھی سوچتاتھا، اپ خود دیکھیں، کہاں شہید ہوا۔

ہاں یار حاجی !میرل جان مستونگ میں شہید ہوا۔

سلام انت میرل جان ترا
ارے سعادو! ہم تو سلام کرتے ہیں، میری دعاہے اللہ جنت نصیب فرماٸے، اللہ پاک ہمیں شہید میرل جان کی طرح ثابت قدم اور کامیاب رکھے۔

اچانک اواز آٸی آجاو، آپ سے کچھ کام ہے

حاجی نے کہا اپ کو عزیزوک بلا رہاہے، جاو میں چاٸے اور سگریٹ کا بہت عادی ہوں میں نے دیکھا عزیزوک کے سامنے چاٸے اور ہاتھ میں سگریٹ تھا، عزیزوک نے مجھ سے سوال کیا کیوں تنہاٸی میں بیٹھے ہو کس سے بات کر رہے تھے۔
“حاجی سے” میں نے جواب دیا

ارے پاگل یہاں کوٸی نہیں ہے، تم اکیلے بیٹھے ہوئے تھے۔ عزیزوک نے سگریٹ کی طرف اشارہ کیا اور میرےہاتھ میں چاٸےکا ایک کپ دیا۔

دیکھو میرے تنہاٸی کے دوست میں جانتا ہوں کہ آپ شہید میرل جان کے بارے میں سوچتے ہو، وہ ایک عظیم انسان تھا، ہمیشہ مجھے تسلی دیتاتھا کم وقت میں ہم لوگوں نے اس سے بہت کچھ سیکھا، صبراور برداشت، اللہ خیر کرے گا آگے بہت اچھا ہوگا، اس طرح کی باتیں کرتا تھا۔ اپ اتنا زیادہ مت سوچو، اس کے دیئے ہوٸے کاموں پر سوچو اور عمل کرو، لوگ کہتے ہیں کہ تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتا، محنت کرنے والے انسان کوکبھی بھی مرنے نہیں دیتا، شہید میرل جان ہمیشہ زندہ ہے اور رہےگا۔ وہ عظیم انسانوں میں سے ہے، تاریخ تو کیا اس کو پہاڑ کا ہر پتھر نہیں بھولتا، میں ہمیشہ آپ کو کہتا ہوں کہ شہیدوں کے بارے میں بات کرنا، سوچنا جو عملی کام ان شہیدوں نے کیا، اُس عمل کو اچھی طرح اپنے زندگی میں لانااور کام کرنا شہیدوں کے ساتھ محبت کا ثبوت ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔