گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو – نودان بلوچ

1303

گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو

نودان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

طاقت کا استعمال زیادہ تر دوسرے کو اپنے تابع کرنے کیلئے کیا جاتا ہے، جب انسان اپنے صلاحتیوں سے کسی چیز کو اپنے قابو کرنے میں ناکام ہو تو وہ اپنی طاقت سے اُسکو بے بس و لاچار بناتا ہے تاکہ وہ اسے قابو کر سکے، اسے اپنے تابع رکھ سکے۔

لیکن بزور طاقت جب کسی کو غلام بنایا جائے، وہ غلام کم قیدی زیادہ ہوتا ہے کیونکہ اس نے غلامی قبول نہیں کیا ہے، اُسے قبول کروایا گیا ہے۔ جس غلام کو طاقت کے زور سے غلام بنایا گیا ہو وہ ہمیشہ غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہونے کا خواہشمند ہوتاہے۔

اگر اُس غلام کو ذہنی طور پر اپنا غلام بنایا جاتا تو وہ غلام اس غلامی کو خود کیلئے نعمت سمجھ کر اُسی میں خوش رہتا ہے۔ کیونکہ وہ خود کو غلام تصور نہیں کرتا وہ اپنے ذہن میں یہ بات جزب کر چُکا ہے کہ وہ آزاد ہے وہ غلام خود کو اُس طاقت کا حصہ سمجھ کر اس خوش فہمی میں اپنا زندگی گذارتا ہے۔

پاکستان نے بلوچ قوم کو بھی بذریعہ طاقت اپنا غلام بنایا اور پھر اس طاقت کو الحاق یا اتحاد کا نام دیا، بے شعور لوگوں کو ذہنی طور پر غلام بنایا گیا، جو آج بھی اس غلامی کا قدر کر رہے ہیں لیکن باشعور لوگ ہمیشہ خود کو اس غلامی سے آزاد کرانے کی کوشش میں ہیں، جابر ریاست نے اپنی ساری صلاحیتیں استعمال کیئے ان باشعور لوگوں کو ذہنی حوالے سے اپنا غلام بنانے کیلئے لیکن وہ ہمیشہ سے ناکام ہی ہوتا آ رہا ہے، جب دشمن نے خود کو ناکام دیکھا تو اُسنے اپنی بادشاہت کو برقرار رکھنے کیلئے طاقت کا استعمال کیا، لوگوں کو لاپتہ کرکے غائب کیا گیا اُنکی مسخ شدہ لاشیں پھینکیں گئیں تاکہ وہ لوگوں کو ڈرا کے اپنے تابع رکھ سکے۔

آج ہزاروں کی تعداد میں نواجون، بچے، خواتین بوڑھے اور ہر طبقہ ہائے فکر کے لوگ ریاست کے عقوبت خانوں میں اسکی ظلم و جبر کو سہہ رہے ہیں، ہر وہ شخص جو حق کی بات کرتا ہے اسکو جبری طور پر گمشدہ کیا جاتا ہے لیکن آج ریاست اتنا کمزور ہوچکا ہے، ‏اتنا بے بس ہوچکا ہے کہ جو لاپتہ افراد کیلئے اپنی آواز بلند کرے، اُسے بھی لاپتہ کردیا جاتا ہے۔

ریاست ان بچیوں سے ڈر رہا ہے، جو اپنے پیاروں کی رہائی کیلئے سڑکوں پر آئے ہیں۔ بہنیں اب بھی اپنی آنکھیں اس راستے پر بچھائے ہوئے ہیں، جہاں انکے بھائیوں کو اٹھا کر لاپتہ کر دیا گیا ہے۔ آج وہ ان ٹپکتے خون کے آنسوؤں سے خوفزدہ ہیں کیونکہ یہ آنسو جو ان معصوم آنکھوں سے ٹپک رہے ہیں، نوجوانوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کر رہے ہیں، بہنوں کی آنکھوں سے ٹپکتے یہ آنسو بھائیوں کا حوصلہ بن رہے ہیں۔

آج ریاست ڈر رہا ہے، خوف کھا رہا ہے کیونکہ یہ آنسو پھر سے ( ضیاء الرحمن المعروف دلجان) جیسے سنگت نا پیدا کریں، جو دشمن کو ہر محاذ پر شکست دینے کی قابلیت رکھتے ہوں، وہ ڈر رہا ہے کے جو ذہن اسکے غلام ہیں انہی ٹپکتے آنسوؤں کو دیکھ کر انکا درد سمجھ کر اسکی غلام میں رہنے والے لوگ باشعور ہوکر اُسی کے خلاف نا ہوجائیں، اسی ڈر سے آج وہ لاپتہ افراد کیلئے اٹھنے والوں کو ایسے جکڑ رہا ہے، جیسے شیروں کا ایک جھُنڈ کسی ہرن پر ٹوٹ پڑا ہو۔

تو یہ ریاست کا طاقت ہماری کمزوری نہیں، یہ ہماری طاقت اور ریاست کی کمزوری ہے۔ آج وہ اس قدر کمزور ہوچکا ہے اس کے پاس کوئی اور راستہ ہی نہیں بچا کہ وہ اس بلند ہوتے ہوئے آواز کو دبا سکے، اب وہ اپنی آخری طاقت کا استعمال کرکے واپس ہمیں خاموش کرنے اور پیچھے دکھیلنے کی کوشش کر رہا ہے، اُسے سمجھ نہیں آرہا اس اٹھتے ہوئے طوفان کا سامنا وہ کیسے کرے، آج وہ اپنا عقل کھو چُکا ہے اسکے خوف کا اندازہ یہی لگایا جا سکتا ہے کہ آج دس سالہ چھوٹی بچیوں کے سامنے نکل کر انکو آواز بلند کرنے سے روکتا ہے۔

ہمیں ریاست کے اس جارحانہ رویے سے خوفزدہ ہوکہ پیچھے نہیں ہٹنا ہے بلکہ شہدؤں کی طرح نڈر اور مخلص ہوکر جہد کو برقرار رکھنا چاہیئے، آج قابض اپنے کمزوریوں کو چھپانے کیلئے ایسے جارحیت کا مظاہرہ کر رہا ہے، ہم سب کو بے خوف ہوکے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے جہد کرنا ہوگا۔ لاپتہ افراد کے لواحقین کا آواز بننا ہوگا، انہیں ان درد بھرے لمحوں میں حوصلہ دینا ہوگا۔ ان کے ساتھ کھڑے ہوکر انکا طاقت بننا ہوگا، یک آواز ہوکر اپنے اوپر ہونے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ہوگا، ظالم کے جبر سے خوفزدہ ہونے کا وقت نہیں، آج جس خوف سے ریاست گذر رہا اس خوف کو برقرار رکھنا ہوگا اور اس گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دینا ہوگا۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔