کوئٹہ: ناروا تعلیمی ایکٹ کے خلاف اساتذہ تنظیموں کا احتجاج

161

بلوچستان کابینہ کی جانب سے حال ہی میں منظور کیے گئے ناروا تعلیمی ایکٹ کے خلاف بلوچستان کی اساتذہ تنظیموں پر مشتمل بلوچستان ایجوکیشنل ایمپلائیز ایکشن کمیٹی کے زیراہتمام کوئٹہ کے میونسپل ہال کے سبزہ زار پہ ایک احتجاجی جلسہ منعقد کیا گیا، جس میں صوبے بھر سے ہزاروں اساتذہ نے شرکت کی.

اساتذہ رہنماؤں نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کی بیوروکریسی ایک شترِبےمہار ہے جو نہ کسی آئین کو مانتی ہے نہ ضابطے کو. نئے نام نہاد تعلیمی ایکٹ میں کسی قسم کا احتجاج کرنے والے استاد کو قید اور جرمانے کا حکم سنایا گیا ہے، جو کہ آئین میں درج بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے. پاکستان کے آئین میں درج ہے کہ پرامن احتجاج کسی بھی شہری کا بنیادی حق ہے، ایک استاد کو اس حق سے محروم کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے، اس لیے یہ ایکٹ آئین کے بھی متصادم ہے.

انہوں نے کہا کہ دراصل بیوروکریسی اس ایکٹ کی آڑ میں اپنے کالے قوانین نافذ کرنا چاہتی ہے جس کی رو سے اساتذہ کو زچ کرکے ان کی سوچنے سمجھنے کی قوت کو مفلوج بنانا ہے. یہ چاہتے ہیں کہ اساتذہ ان کے ذاتی ملازمین کی طرح ان کے سامنے دُم ہلانے والی مخلوق ہوں، ان کی کرپشن پر کوئی آواز نہ اٹھائی جا سکے، ان کی بدمعاشیوں کو کوئی چیلنج نہ کر سکے، لیکن آج اساتذہ کے اتحاد نے ثابت کر دیا ہے کہ بلوچستان کے اساتذہ اس تعلیم دشمن ایکٹ کو مسترد کرتے ہیں.

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس غیرآئینی، غیراخلاقی و غیرانسانی ایکٹ کے خلاف ہر سطح پر جانے کو تیار ہیں. احتجاج کے ساتھ ساتھ وہ اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی کریں گے.

اس احتجاج میں بلوچستان کے سکول اساتذہ کی تنظیمیں جی ٹی اے، وطن ٹیچرز ایسوسی ایشن، سییسا، کالج اساتذہ کی تنظیم بی پی ایل اے شامل تھیں جب کہ کلرک ایسوسی ایشن ایپکا نے بھی اس احتجاج میں بطور یکجہتی شرکت کی.